الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
2. باب الاِسْتِخْلاَفِ وَتَرْكِهِ:
2. باب: خلیفہ بنانے اور اس کو چھوڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4713
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " حَضَرْتُ أَبِي حِينَ أُصِيبَ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهِ، وَقَالُوا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، فَقَالَ: رَاغِبٌ وَرَاهِبٌ، قَالُوا: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَتَحَمَّلُ أَمْرَكُمْ حَيًّا وَمَيِّتًا، لَوَدِدْتُ أَنَّ حَظِّي مِنْهَا الْكَفَافُ لَا عَلَيَّ، وَلَا لِي فَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْكُمْ، فَقَدْ تَرَكَكُمْ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ حِينَ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ ".
ہشام کے والد (عروہ) نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب میرے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) زخمی ہوئے تو میں ان کے پاس موجود تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا: "اللہ آپ کو اچھی جزا دے!" انہوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں (بیک وقت) رغبت رکھنے والا اور ڈرنے والا ہوں۔ لوگوں نے کہا: آپ کسی کو اپنا (جانشیں) بنا دیجیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زندگی میں بھی تمہارے معاملات کا بوجھ اٹھاؤں اور مرنے کے بعد بھی؟ مجھے صرف یہ خواہش ہے کہ (قیامت کے روز) اس خلافت سے میرے حصے میں یہ آ جاے کہ (حساب کتاب) برابر سرابر ہو جائے۔ نہ میرے خلاف ہو، نہ میرے حق میں (چاہے انعام نہ ملے، مگر سزا سے بچ جاؤں) اگر میں جانشیں مقرر کروں تو انہوں نے مقرر کیا جو مجھ سے بہتر تھے، یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اگر میں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں تو انہوں نے تمہیں (جانشیں مقرر کیے بغیر) چھوڑ دیا جو مجھ سے (بہت زیادہ) بہتر تھے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ جانشیں مقرر نہیں کریں گے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میرے باپ زخمی ہوئے، تو میں حاضر تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا، اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، انہوں نے کہا، میں اللہ کی نعمتوں کا امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہوں، لوگوں نے کہا، آپ خلیفہ مقرر فرما دیں، انہوں نے کہا، کیا میں تمہارا ذمہ زندگی اور موت دونوں صورتوں میں اٹھاؤں؟ میری تمنا ہے، کہ مجھے خلافت سے برابر برابر چھٹکارا مل جائے، نہ مجھ سے مؤاخذہ ہو اور نہ مجھے اجر و ثواب ملے، اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں، تو مجھ سے بہتر شخصیت یعنی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جانشین بنا چکے ہیں اور اگر میں تمہیں بغیر جانشین کے رہنے دوں، تو تمہیں اس طرح مجھ سے بہتر شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ چکے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1823
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلمرسول الله لم يستخلف
   صحيح مسلمذكر رسول الله غير مستخلف
   جامع الترمذيلم يستخلف رسول الله
   سنن أبي داودما هو إلا أن ذكر رسول الله وأبا بكر فعلمت أنه لا يعدل برسول الله أحدا وأنه غير مستخلف

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4713 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4713  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رَاغِب وَرَاهِب:
اس کی تشریح میں اختلاف ہے،
بقول بعض معنی یہ ہے،
میں تعریف کا خواہاں نہیں،
میں تو اگلی دنیا میں اللہ کی رحمتوں اور اس کی نعمتوں کا امید وار اور خواہش مند ہوں اور اس کے عذاب سے لرزاں ہوں اور بقول بعض،
لوگ میری تعریف،
میرے تقرب کے حصول کے لیے یا مجھ سے ڈر کر کہہ رہے ہیں،
یا ان میں سے بعض خلافت کے خواہاں ہیں اور بعض اس سے ڈر رہے ہیں،
اگر میں خواہاں کو خلیفہ بناؤں تو وہ اللہ کی توفیق واعانت سے محروم ہوگیا اور ڈرنے والے کا بتاؤں،
توشاید،
اس ذمہ داری کو ادا نہ کر سکے۔
(2)
اَتَحَمَّلُ أَمرَكُم حَيًّا وَمَيتَا:
میں نے زندگی میں خلافت کی ذمہ داری کو اٹھائی ہے،
تو کیا اب مرتے وقت خلیفہ مقرر کرکے،
میں پھر اس ذمہ دار کو اٹھاؤں،
کہ خلیفہ کے بارے میں مجھ سے سوال ہو،
کیساآدمی خلیفہ مقرر کیا تھا۔
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جانشین کے بارے میں،
جس رائے کا اظہار فرمایا ہے،
اس سے معلوم ہوتا ہے،
خلیفہ حالات وظروف کے پیش نظر،
اگر اپنا جانشین مقرر کر دے،
بشرطیکہ وہ اس کے خاندان سے نہ ہو،
تو اس کے لیے اہل حل وعقد سے مشورہ لینے کا پابند نہیں ہے،
اگرچہ بقول اہل بصرہ،
اہل حل وعقد،
اس کے تقرر کے پابند نہیں ہیں،
اگر اس کو مناسب خیال نہ کریں،
تو وہ اس کی بیعت سے انکار کر سکتے ہیں اور آج کل کے ظروف و حالات کا تقاضا یہی ہے،
اس مسلہ کو اہل حل وعقد پر چھوڑ دیا جائے۔
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے تقرر کو،
(خود انتخاب کرنے کے بجائے)
اس مسلہ کو اہل حل عقد کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا،
لیکن آج کل کے بے دینی کے سیلاب میں یہ بھی ممکن نہیں رہا ہے،
کیونکہ آج کل کافرانہ سیاست کا غلبہ ہے،
جس کی رو سے اقتدار رسہ کشی کا نام ہے اور مال ودولت کا کھیل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4713   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2939  
´خلیفہ (اپنے بعد) خلیفہ نامزد کر سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا ۱؎ اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اللہ کی! انہوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو درجہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ وہ کسی کو خلیف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2939]
فوائد ومسائل:
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرما دیئے۔
کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنا دیا جائے۔
اور وہ تھے۔
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد ازاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔
کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا؟ جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔
تو آپ ﷺنے جواب دیا۔
میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔
کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔
پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔
لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔
(صحیح البخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البعیة، حدیث:3700) اس موقع پر ایک شخص نے کہا آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصود اللہ کی رضا نہیں، ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔
کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنا دوں جو صحیح طریق سے بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا؟ آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔
اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔
آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔
جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔
تو جو کوئی مخالفت کرے اسے قتل کر دیں۔
یہ بات سن کر یہ حضرات باہر آئے۔
تو آپ نے فرمایا۔
اگر یہ لوگ اجلح (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ولی الامر بنا دیں تو وہ انہیں لے کر جادہ مستقیم پر گامزن رہیں گے۔
بیٹے نے کہا۔
آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے (کیونکہ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے) فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی (فتح الباري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البیعة: 87/7) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔
)
آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔
ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔
یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔
(حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ) سے باہر تھے۔
اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔
تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔
اٹھو اور مشورہ کرو۔
پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
ابھی توقف کرو۔
اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔
اور تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو۔
(فتح الباری حوالہ سابقہ) اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔
اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔


آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔
وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔
جن کا کردار ایسا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔


یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔
اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔
یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔


آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔


آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔
آپ ان پر سخت ناراض ہوئے۔
اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔
اور اس بات کو اللہ کی ناراضگی کا سبب گردانا۔


آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔
اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔
اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔
اسی طرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیا جائے۔


آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔
گویا آپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا ذمہ دار قرار دیا۔


آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔
اور یہ کہا کہ جائو اور فورا مشاورت کرو۔
اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کا طریق کار یاد کرا دیا۔


یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔
تو انتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔
اور اس کی سزا موت ہوگی۔

10۔
یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاورت کے بغیر حکومت پر قبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتا ہے۔
اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2225  
´خلافت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے کہا گیا: کاش! آپ کسی کو خلیفہ نامزد کر دیتے، انہوں نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر رضی الله عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور اگر کسی کو خلیفہ نہ مقرر کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں مقرر کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2225]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اگرمیں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کردوں تواپنے پیش رو کی اقتداء میں ایسا ہوسکتا ہے،
اور اگر نہ مقرر کروں تو یہ رسول اکرمﷺ کی اقتداء ہے کہ آپﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔

2؎:
یہ قصہ صحیح مسلم میں کتاب الإمارہ کے شروع میں مذکور ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2225   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4714  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے، تمہارے باپ کسی کو جانشین مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا، وہ ایسا نہیں کریں گے، انہوں نے کہا، وہ ایسا ہی کریں گے، تو میں نے قسم اٹھائی، کہ میں اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کروں گا، لیکن میں خاموش رہا، حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے گفتگو نہ کی اور قسم اٹھانے کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا کہ میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4714]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا،
حضرت ابوبکر کی خلافت کی صورتحال ان کے فضائل میں آئے گی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس کو امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا،
اس لیے امت کے اہل حل وعقد،
اپنے حالات اور ظروف کے مطابق اس کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں،
کسی ایک طریقہ کی پابندی لازم نہیں ہے۔
اور اس لیے فقہائے امت نے اس کے لیے کسی طریقہ کی تعیین نہیں کی ہے اور نہ کسی ایک طریقہ پر خیرالقرون میں عمل رہا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4714