ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے دین پر تھے، مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس کہتے تھے (ابوالہیثم نے کہا ہے کہ یہ نام قریش کا ہے اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لئے کہ وہ اپنے دین میں حمس رکھتے تھے یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں۔ اور یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ”وہیں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں“۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش اور ان کے طریقہ پر چلنے والے، مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور خود کو حُمس (دین میں متصلب اور پختہ) کہتے تھے اور باقی عرب عرفہ میں وقوف کرتے تھے، جب اسلام کا دور آیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو عرفات پہنچ کر وقوف کرنے کا حکم دیا، پھر وہاں سے واپس لوٹے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”پھر وہاں سے لوٹو، جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں۔“(سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 199)
ابو اسامہ نے کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا، کہا: حمس (کہلانے والے قبائل) کے علاوہ عرب (کےتمام قبائل) عریاں ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔حمس (سے مراد) قریش اور ان (کی باہر بیاہی ہوئی خواتین) کے ہاں جنم لینے والے ہیں۔عام لوگ برہنہ ہی طواف کرتے تھے، سوائے ان کے جنھیں اہل حمس کپڑے دے دیتے (دستور یہ تھا کہ) مرد مردوں کو (طواف کے لئے) لباس دیتے اورعورتین عورتوں کو۔ (اسی طرح) حمس (دوران حج) مزدلفہ سے آگے نہیں بڑھتے تھے اور باقی سب لوگو عرفات تک پہنچتے تھے۔ ہشام نے کہا: مجھے میرے والد (عروہ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےفرمایا: یہ حمس ہی تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "پھر تم وہیں سے (طواف کے لئے) چلو جہاں سے (دوسرے) لوگ چلیں۔"انھوں نےفرمایا: لوگ (حج میں) عرفات سے لوٹتے تھے اور اہل حمس مزدلفہ سےچلتے تھے اور کہتے تھے: ہم حرم کے سوا کہیں اور سے نہیں چلیں گے جب آیت"پھر تم وہیں سے چلو جہاں سے دوسرے لوگ چلیں"نازل ہوئی تو یہ عرفات کی طرف لوٹ آئے۔
ہشام اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ عرب حُمس قریش کو چھوڑ کر، بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے، اور حُمس سے مراد قریش اور ان کی اولاد ہے، عرب ان کے سوا جن کو قریش کپڑے عنایت کر دیتے، برہنہ طواف کرتے تھے، مرد، مردوں کو کپڑے دیتے اور عورتیں عورتوں کو دیتیں، اور حُمس مزدلفہ سے باہر نہیں نکلتے تھے، اور باقی سب لوگ عرفات پہنچتے تھے، ہشام کہتے ہیں، مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنها سے نقل کیا کہ حُمس ہی کی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ”پھر وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ وہ بیان فرماتی ہیں کہ سب لوگ عرفات سے واپس لوٹتے اور حُمس مزدلفہ سے واپس آ جاتے تھے، وہ کہتے تھے، ہم حرم ہی سے واپس لوٹ آئیں گے، تو جب یہ آیت نازل ہوئی، ”وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ تو وہ عرفات تک پہنچ کر لوٹنے لگے۔
حمد بن جبیر بن معطم نے اپنے والد حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے اپنا ایک اونٹ کھو دیا، میں عرفہ کے دن اسے تلاش کرنے کے لیے نکلا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے دیکھا، میں نے کہا: اللہ کی قسم!یہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اہل حمس میں سے ہیں، آپ کا یہاں (عرفات میں) کیا کام؟ (کیونکہ) قریش حمس میں شمار ہوتے تھے (اورآپ قریشی ہی تھے۔)
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا اونٹ گم ہو گیا اور میں اس کی تلاش میں عرفہ کے دن نکلا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے دیکھا، میں نے دل میں کہا، اللہ کی قسم! یہ تو حمس سے ہیں، تو وہ اس جگہ کیوں آ گئے؟ قریش حمس میں شمار ہوتے تھے۔