ابو اسامہ نے کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا، کہا: حمس (کہلانے والے قبائل) کے علاوہ عرب (کےتمام قبائل) عریاں ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔حمس (سے مراد) قریش اور ان (کی باہر بیاہی ہوئی خواتین) کے ہاں جنم لینے والے ہیں۔عام لوگ برہنہ ہی طواف کرتے تھے، سوائے ان کے جنھیں اہل حمس کپڑے دے دیتے (دستور یہ تھا کہ) مرد مردوں کو (طواف کے لئے) لباس دیتے اورعورتین عورتوں کو۔ (اسی طرح) حمس (دوران حج) مزدلفہ سے آگے نہیں بڑھتے تھے اور باقی سب لوگو عرفات تک پہنچتے تھے۔ ہشام نے کہا: مجھے میرے والد (عروہ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےفرمایا: یہ حمس ہی تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "پھر تم وہیں سے (طواف کے لئے) چلو جہاں سے (دوسرے) لوگ چلیں۔"انھوں نےفرمایا: لوگ (حج میں) عرفات سے لوٹتے تھے اور اہل حمس مزدلفہ سےچلتے تھے اور کہتے تھے: ہم حرم کے سوا کہیں اور سے نہیں چلیں گے جب آیت"پھر تم وہیں سے چلو جہاں سے دوسرے لوگ چلیں"نازل ہوئی تو یہ عرفات کی طرف لوٹ آئے۔
ہشام اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ عرب حُمس قریش کو چھوڑ کر، بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے، اور حُمس سے مراد قریش اور ان کی اولاد ہے، عرب ان کے سوا جن کو قریش کپڑے عنایت کر دیتے، برہنہ طواف کرتے تھے، مرد، مردوں کو کپڑے دیتے اور عورتیں عورتوں کو دیتیں، اور حُمس مزدلفہ سے باہر نہیں نکلتے تھے، اور باقی سب لوگ عرفات پہنچتے تھے، ہشام کہتے ہیں، مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنها سے نقل کیا کہ حُمس ہی کی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ”پھر وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ وہ بیان فرماتی ہیں کہ سب لوگ عرفات سے واپس لوٹتے اور حُمس مزدلفہ سے واپس آ جاتے تھے، وہ کہتے تھے، ہم حرم ہی سے واپس لوٹ آئیں گے، تو جب یہ آیت نازل ہوئی، ”وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔“ تو وہ عرفات تک پہنچ کر لوٹنے لگے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2955
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قریش حرم کے باشندے تھے اس لیے ان کا یہ نظریہ تھا کہ حرم کے باشندوں کو حدود حرم سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور عرفات حدود حرم سے باہر واقع ہے اس لیے وہ مزدلفہ میں ہی ٹھہر جاتے تھے۔ قرآن نے اس نظریہ کی تردید کر کے قریش کو بھی عرفات میں وقوف کرنے کا حکم دیا اور وقوف عرفات حج کا اہم ترین رکن ہے اگر یہ رہ جائے تو حج نہیں ہوگا۔ کسی قسم کے فدیہ سے بھی اس کی تلافی ممکن نہیں ہے، اس پر پوری امت کا اتفاق ہے، اور وقوف عرفات کا وقت 9 ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے شروع ہو جاتا ہے اور اگلے دن 10 ذوالحجہ کی صبح تک رہتا ہے، اس لیے جو شخص اس وقت کے اندر اندر عرفات پہنچ گیا اس کا حج ہو جائے گا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور امت کا یہی نظریہ ہے صرف امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وقوف عرفات کا وقت عرفہ کے روز صبح ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل کے خلاف ہے۔