حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے اے رب! اب یہ نطفہ ہے، اے رب! اب یہ علقہ ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ مضغہ ہو گیا ہے۔ پھر جب خدا چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق مکمل کرے تو (وہ فرشتہ)کہتا ہے کہ مذکر ہے، یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی؟ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1696]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 6 كتاب الحيض: 17 باب مخلقة وغير مخلقة»
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت، اس پر ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسا کر لیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میںہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بد بختوں کو برے کاموں میں آسانی نظر آتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی فرمائی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے دین کو سچا مانا، اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔“(اللیل: ۵۔ ۷)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1697]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 83 باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله»
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے، کہ ایک صاحب نے (یعنی خود انہوں نے) عرض کیا یا رسول اللہ!کیا جنت کے لوگ اہل جہنم میں سے پہچانے جا چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ انہوں نے کہا کہ پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کریں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جس کے لئے اسے سہولت دی گئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1698]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 82 كتاب القدر: 2 باب جف القلم على علم الله»
حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1699]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 77 باب لا يقول فلان شهيد»