اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
836. باب من فضائل أبي موسى وأبي عامر الأشعريين رضی اللہ عنہ
836. باب: اشعر قبیلہ کے حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عامر رضی اللہ عنہ کے فضائل
حدیث نمبر: 1623
1623 صحيح حديث أَبِي مُوسى رضي الله عنه، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ نَازِلٌ بَالْجِعْرَانَةِ، بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، وَمَعَهُ بِلاَلٌ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: أَلاَ تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ: أَبْشِرْ فَقَالَ: قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ (أَبْشِرْ) فَأَقْبَلَ عَلَي أَبِي مُوسى وَبِلاَلٍ، كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ، فَقَالَ: رَدَّ الْبُشْرَى، فَاقْبَلاَ أَنْتُمَا قَالاَ: قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ، فِيهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ، وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا، وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ، فَفَعَلاَ فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ: أَنْ أَفْضِلاَ لأُمِّكُمَا فَأَفْضَلاَ لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھاجب آپ جعرانہ سے‘ جو مکہ او ر مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے، سے اتر رہے تھے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے اسی عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے، اسے پورا کیوں نہیں کرتے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک ابو موسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا‘ آپ بہت غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اس نے بشارت واپس کر دی، اب تم دونوں اسے قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا ہم نے قبول کیا پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہر دو سے) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا، پردہ کے پیچھے سے اُم سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ اپنی ماں کے لئے بھی کچھ چھوڑ دینا چنانچہ انہوں نے ان کے لئے ایک حصہ چھوڑ دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1623]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان»

حدیث نمبر: 1624
1624 صحيح حديث أَبِي مُوسَى رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ حُنَيْن، بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِي دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ فَقُتِلَ دُرَيْدٌ، وَهَزَمَ اللهُ أَصْحَابَهُ قَالَ أَبُو مُوسى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ فأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ فَأَشَارَ إِلَي أَبِي مُوسى، فَقَالَ: ذَاكَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ: أَلاَ تَسْتَحِي أَلاَ تَثْبُتُ فَكَفَّ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ، فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ لأَبِي عَامِرٍ: قَتَلَ اللهُ صَاحِبَكَ قَالَ: فَانْزِعْ هذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ، فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي أَقْرِىءِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلاَمَ، وَقُلْ لَهُ: اسْتَغْفِرْ لِي وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، فَمَكُثَ يَسِيرًا، ثُمَّ مَاتَ فَرَجَعْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي بَيْتِهِ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ، وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرٍ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا، وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ وَقَالَ قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: اللهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ فَقُلْتُ: وَلِي فَاسْتَغْفِرْ فَقَالَ: اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلاً كَرِيمًا قَالَ أَبُو بُرْدَةَ (رَاوِي الْحَدِيثِ): إِحْدَاهُمَا لأَبِي عَامِرٍ، والأُخْرَى لأَبِي مُوسى
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین سے فارغ ہوگئے تو آپ نے ایک دستے کے ساتھ ابو عامر رضی اللہ عنہ کو وادی اوطاس کی طرف بھیجا اس معرکہ میں درید ابن الصمہ سے مقابلہ ہوا۔ درید قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو شکست دے دی۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو عامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی بھیجا تھا۔ ابو عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں آکر لگا۔ بنی جعشم کے ایک شخص نے ان پر تیر مارا تھا اور ان کے گھٹنے میں اتار دیا تھا میں ان کے پاس پہنچا اور کہا چچا! یہ تیر آپ پر کس نے پھینکا ہے؟ انہوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارے سے بتایا کہ وہ جشمی میرا قاتل ہے جس نے مجھے نشانہ بنایا ہے میں اس کی طرف لپکا اور اس کے قریب پہنچ گیا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ بھاگ پڑا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور میں یہ کہتا جا تا تھا‘ تجھے شرم نہیں آتی‘ تجھ سے مقابلہ نہیں کیا جاتا آخر وہ رک گیا اور ہم نے ایک دوسرے پر تلوار سے وار کیا۔میں نے اسے قتل کر دیا اورابو عامر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو قتل کروا دیا انہوں نے فرمایا کہ میرے (گھٹنے میں سے) تیر نکال لے ‘ میں نے نکال دیا تو اس سے پانی جاری ہوگیا، پھر انہوں نے فرمایا بھتیجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچانا اور عرض کرنا کہ میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں ابو عامر رضی اللہ عنہ نے لوگوں پر مجھے اپنا نائب بنا دیا اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہے اور شہادت پائی۔ میں واپس ہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا آپ اپنے گھر میں بانوں کی ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا اور بانوں کے نشانات آپ کی پیٹھ او رپہلو پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے اپنے اور ابو عامر رضی اللہ عنہ کے واقعات بیان کئے اور یہ کہ انہوں نے دعائے مغفرت کے لئے درخواست کی ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘ اے اللہ! عبید ابو عامر رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرما میں نے آ پ کی بغل میں سفیدی دیکھی (جب آپ دعا کر رہے تھے)، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! قیامت کے دن ابو عامر رضی اللہ عنہ کو اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرمانا۔ میں نے عرض کیا اور میرے لئے بھی اللہ سے مغفرت کی دعا فرما دیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! عبداللہ ابن قیس ابو موسیٰ کے گناہوں کو بھی معاف فرما اور قیامت کے دن اچھا مقام عطا فرمانا۔ ابو بردہ رضی اللہ عنہ (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ ایک دعا ابو عامر رضی اللہ عنہ کے لئے تھی اور دوسری ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1624]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 55 باب غزاة أوطاس»