حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھاجب آپ جعرانہ سے‘ جو مکہ او ر مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے، سے اتر رہے تھے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے اسی عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے، اسے پورا کیوں نہیں کرتے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک ابو موسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا‘ آپ بہت غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے بشارت واپس کر دی، اب تم دونوں اسے قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا ہم نے قبول کیا پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہر دو سے) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا، پردہ کے پیچھے سے اُم سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ اپنی ماں کے لئے بھی کچھ چھوڑ دینا چنانچہ انہوں نے ان کے لئے ایک حصہ چھوڑ دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1623]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان»