اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
819. باب فاطمة بنت النبيّﷺ
819. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا ذکر
حدیث نمبر: 1591
1591 صحيح حديث الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ، لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا فَقُلْتُ لَهُ: لاَ فَقَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ وَايْمُ اللهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لاَ يُخْلَصُ إِلَيْهِمْ أَبدًا حَتَّى تُبْلَغَ نَفْسِي إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ، عَلَى مِنْبَرِهِ هذَا، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ فَقَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَخَافُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلاَلاً، وَلاَ أُحِلُّ حَرَامًا، وَلكِنْ، وَاللهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللهِ أَبَدًا
ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ (حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی، اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہوتو مجھے حکم فرما دیجئے۔ (حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ) میں نے کہا، مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ اسے آپ سے نہ چھین لیں اور خدا کی قسم! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی (جمیلہ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا۔ میں اس وقت بالغ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ مجھ سے ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ (اس رشتہ کی وجہ سے) کسی گناہ میں نہ پڑ جائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد (عاص بن ربیع) کا ذکر کیا اور دامادی سے متعلق آپ نے ان کی تعریف کی، آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات کہی سچ کہی۔ جو وعدہ کیا، اسے پورا کیا۔ میں کسی حلال (یعنی نکاح ثانی) کو حرام نہیں کر سکتا، اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1591]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 5 باب ما ذكر من درع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعصاه وسيفه»

وضاحت: امام نووی شرح مسلم میں نقل کرتے ہیں کہ علماء نے فرمایا ہے اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر حالت میں اور ہر طریقے سے ایذا دینا حرام ہے اگرچہ اس ایذا کی اصل شرعی اعتبار سے مباح ہو اور آپ زندہ تھے۔ لیکن اس میں دوسروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ ابوجہل کی بیٹی کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح مباح ہے کیونکہ فرمایا میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پختہ اسباب کی وجہ سے دونوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا۔ (۱) اس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو تکلیف ہو گی جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تکلیف ہو گی تو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتا ہے وہ ہلاک ہو گا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اپنی کامل شفقت کی وجہ سے انہیں اس فعل سے منع فرما دیا۔ (۲) سوکن کے آنے سے غیرت کی وجہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ پر فتنے اور آزمائش کا خوف تھا۔ (مرتب) دین میں فتنے سے مراد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسری بیوی لائیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سوکن بننے کی عداوت سے جو ہر عورت کے دل میں ہوتی ہے، کسی گناہ میں مبتلا ہو جائیں مثلاً خاوند کو ستائیں، ان کی نا فرمانی کریں یا سوکن کو برا بھلا کہیں۔ (راز)

حدیث نمبر: 1592
1592 صحيح حديث الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: إِنَّ عَلِيًّا خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ، فَسَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّكَ لاَ تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهذَا عَلِيٌّ نَاكِحٌ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ يَقُولُ: أَمَّا بَعْدُ، أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحدَّثَنِي وَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا وَاللهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللهِ، عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو(جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا اس کی اطلاع جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر(جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئے یہ علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا۔ میں نے آپ کو خطبہ پڑھتے سنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امابعد! میں نے ابو العاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی) شادی کی (آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) تو انہوں نے جوبات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1592]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 16 باب ذكر أصهار النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ منهم أبو العاص بن الربيع»

حدیث نمبر: 1593
1593 صحيح حديث عَائِشَةَ، وَفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ عَنْ عَائِشَةَ، أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: إِنَّا كُنَّا، أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عِنْدَهُ جَمِيعًا لَمْ تُغَادَرْ مِنَّا وَاحِدَةٌ فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تَمْشِي، لاَ، وَاللهِ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مَشْيَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ قَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ سَارَّهَا فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا فَلَمَّا رَأَى حُزْنَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ، فَإِذَا هِيَ تَضْحَكُ فَقُلْتُ لَهَا، أَنَا مِنْ بَيْنَ نِسَائِهِ: خَصَّكِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِالسِّرِّ مِنْ بَيْنِنَا، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلْتُهَا: عَمَّا سَارَّكِ قَالَتْ: مَا كُنْتُ لأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ فَلَمَّا تُوُفِيَ قُلْتَ لَهَا: عَزَمْتُ عَلَيْكِ، بَمَا لِي عَلَيْكِ مَنَ الْحَقِّ، لَمَّا أَخْبَرْتِنِي قَالَتْ: أَمَّا الآنَ، فَنَعَمْ فَأَخْبَرَتْنِي، قَالَتْ: أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الأَمْرِ الأَوَّلِ، فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي: أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَارَضَنِي بِهِ، الْعَامَ، مَرَّتَيْنِ، وَلاَ أَرَى الأَجَلَ إِلاَّ قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللهَ وَاصْبِرِي، فَإِنِّي نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، قَالَ: يَا فَاطِمَةُ أَلاَ تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هذِهِ الأُمَّةِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا یہ تمام ازواج مطہرات (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ خدا کی قسم! ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا: بیٹی! مرحبا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انہیں بٹھایا۔ اس کے بعد آہستہ سے ان سے کچھ کہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان سے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز نہیں کھول سکتی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میرا جو حق آپ پر ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بتا سکتی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ جبرئیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے سال میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے، اللہ سے ڈرتی رہنا اورصبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لئے ایک اچھا آگے جانے والا ہوں بیان کیا کہ اس وقت میرا رونا جو آپ نے دیکھا تھا اس کی وجہ یہی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا: فاطمہ بیٹی!کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ) اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1593]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 43 باب من ناجى بين يدي الناس ومن لم يخبر بسر صاحبه»