حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، پھر فرمایا اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لئے پسند کرلے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے (آخرت میں) اسے پسند کرلے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کرلیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں(حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس رونے پر حیرت ہوئی، بعض لوگوں نے کہا ان بزرگوں کو دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جواللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اورمال کے ذریعہ مجھ پر صرف ایک ابوبکر ہیں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا جاتی بناسکتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کوبناتا، البتہ اسلامی رشتہ ان کے ساتھ کافی ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1541]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 45 باب هجرة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه إلى المدينة»