اللؤلؤ والمرجان
كتاب الآداب
کتاب: آداب کا بیان
724. باب استحباب تحنيك المولود عند ولادته وحمله إِلى صالح يحنكه وجواز تسميته يوم ولادته واستحباب التسمية بعبد الله وإِبراهيم وسائر أسماء الأنبياء عليهم السلام
724. باب: بچے کے منہ میں کچھ چبا کر ڈالنا (گھٹی دینا) اور اس کے لیے اس کو کسی نیک آدمی کے پاس لے جانا اور پیدائش کے دن نام رکھنا بہتر ہے نیز عبداللہ ابراہیم اور دیگر تمام انبیاء کے نام رکھنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 1386
1386 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ ابْنٌ لأَبِي طَلْحَةَ يَشْتَكِي، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقُبِضَ الصَّبِيُّ فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: مَا فَعَل ابْني قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: هُوَ أَسْكَنُ مَا كَانَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ الْعَشَاءَ، فَتَعَشَّى، ثُمَّ أَصَابَ مِنْهَا فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَتْ: وَارِ الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبُو طَلْحَةَ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: أَعْرَسْتُمُ اللَّيْلَةَ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: اللهُمَّ بَارِكْ لَهُمَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا قَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: احْفَظْهُ حَتَّى تَأْتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْسَلَتْ مَعَهُ بِتَمَرَاتٍ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَمَعَهُ شَيْءٌ قَالُوا: نَعَمْ، تَمَرَاتٌ فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ فِيهِ، فَجَعَلَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ، وَحَنَّكَهُ بِهِ، وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللهِ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا۔ ابو طلحہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ (تھکے ماندے) واپس آئے تو پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ ان کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون کے ساتھ ہے پھر بیوی نے ان کے سامنے رات کا کھانا رکھا اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہم بستری کی پھر جب فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بچہ کو دفن کر دو۔ صبح ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم نے رات ہم بستری بھی کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ!ان دونوں کو برکت عطا فرما۔ پھر ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھ سے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے حفاظت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور اُمّ سلیم رضی اللہ عنہ نے بچہ کے ساتھ کچھ کھجوریں بھیجیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو لیا اور دریافت فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں کھجوریں ہیں۔ آپ نے اسے لے کر چبایا اور پھر اسے اپنے منہ میں سے نکال کر بچہ کے منہ میں رکھ دیا اور اس سے بچہ کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الآداب/حدیث: 1386]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 71 كتاب العقيقة: 1 باب تسمية المولود غداة يولد لمن لم يعق عنه، وتحنيكه»

حدیث نمبر: 1387
1387 صحيح حديث أَبِي مُوسى رضي الله عنه، قَالَ: وُلِدَ لِي غُلاَمٌ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ، فَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ وَدَفَعَه إِلَيَّ وَكَانَ أَكْبَرَ وَلَدِ أَبِي مُوسى
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لئے برکت کی دعا کی پھر مجھے دے دیا۔ یہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الآداب/حدیث: 1387]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 71 كتاب العقيقة: 1 باب تسمية المولود غداة يولد لمن لم يعق عنه، وتحنيكه»

حدیث نمبر: 1388
1388 صحيح حديث أَسْمَاءَ رضي الله عنها، أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ فَكَانَ أَوّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ، ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّكَ عَلَيْهِ؛ وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ
حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پیٹ میں تھے، انہیں دنوں جب حمل کی مدت بھی پوری ہو چکی تھی، میں مدینہ کے لئے روانہ ہوئی یہاں پہنچ کر میں نے قبا میں پڑاؤ کیا اور یہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ پھر میں انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں اسے رکھ دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے منہ میں اسے رکھ دیا، چنانچہ سب سے پہلی چیز جو عبداللہ رضی اللہ عنہ کے منہ میں داخل ہوئی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک لعاب تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور اللہ سے ان کے لیے برکت طلب کی۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے بچے ہیں جن کی پیدائش ہجرت کے بعد ہوئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الآداب/حدیث: 1388]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 45 باب هجرة النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابه إلى المدينة»

حدیث نمبر: 1389
1389 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: أُتِيَ بِالْمُنْذِرِ ابْنِ أَبِي أُسَيْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَيْدٍ جَالِسٌ؛ فَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَمَرَ أَبُو أُسَيْدٍ بِابْنِهِ فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفَاقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الصَّبِيُّ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: قَلَبْنَاهُ، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: مَا اسْمُهُ قَالَ: فُلاَنٌ قَالَ: وَلكِنْ أَسْمِهِ الْمُنْذِرَ فَسَمَّاهِ يَوْمَئِذٍ الْمُنْذِرَ
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ منذر بن ابی اسید رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنی ران پر رکھ لیا۔ ابو اسید رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز میں جو سامنے تھی مصروف ہو گئے(اوربچے کی طرف توجہ سے ہٹ گئی) ابو اسید رضی اللہ عنہ نے بچے کے متعلق حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے اسے اٹھا لیا گیا۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے تو فرمایا: بچے کہاں ہے؟ ابو اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!ہم نے اسے گھر بھیج دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا نام کیا ہے؟ عرض کیا کہ فلاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ اس کا نام منذر ہے۔ چنانچہ اسی دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہی نام منذر رکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الآداب/حدیث: 1389]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 108 باب تحويل الاسم إلى اسم أحسن منه»

حدیث نمبر: 1390
1390 صحيح حديث أَنَسٍ: قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عُمَيْر، وقال أحبه فَطِيمٌ وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغيْرُ نُغَرٌ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے، میرا ایک بھائی ابو عمیر نامی تھا۔ بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ بچہ کا دودھ چھوٹ چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے۔ یا ابو عمیر! تمہاری چڑیا کا کیا حال ہے؟ وہ اس بچے کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الآداب/حدیث: 1390]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 112 باب الكنية للصبي قبل أن يولد للرجل»