اللؤلؤ والمرجان
كتاب اللباس والزينة
کتاب: لباس اور زینت کے بیان میں
719. باب حريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والنامصة والمتنمصة والمتفلجات والمغيرات خلق الله
719. باب: بالوں میں جوڑ لگانا اور لگوانا، گودنا اور گودوانا اور چہرے کی روئیں نکالنا اور نکلوانا اور دانتوں کو کشادہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنا حرام ہے
حدیث نمبر: 1375
1375 صحيح حديث أَسْمَاءَ، قَالَتْ: سَأَلَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ ابْنَتِي أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ فَامَّرَقَ شَعْرُهَا، وَإِنِّي زَوَّجْتُهَا؛ أَفَأَصِلُ فِيهِ فَقَالَ: لَعَنَ اللهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصولَةَ
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری لڑکی کو چیچک نکلی، اور اس سے اس کے بال جھڑ گئے۔ میں اس کی شادی بھی کر چکی ہوں تو کیا اس کے سر میں مصنوعی بال لگا دوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے لگایا جائے، دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1375]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب اللباس: 85 باب الموصولة»

حدیث نمبر: 1376
1376 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ زَوَّجَتِ ابْنَتَهَا، فَتَمَعَّطَ شَعَرُ رَأْسِهَا فَجَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ؛ فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجَهَا أَمَرَني أَنْ أَصِلَ فِي شَعَرِهَا، فَقَالَ: لاَ، إِنَّهُ قَدْ لُعِنَ الْمُوصِلاَتُ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔ اس کے بعد لڑکی کے سر کے بال بیماری کی وجہ سے اڑ گئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے شوہر نے اس سے کہا ہے کہ اپنے بالوں کے ساتھ (دوسرے مصنوعی بال) جوڑ لئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ایسا تو ہرگز مت کر کیونکہ (مصنوعی بال سر پر رکھ کر جو جوڑے تو) ایسے بال جوڑنے والیوں پر لعنت کی گئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1376]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 94 باب لا تطيع المرأة زوجها في معصية»

حدیث نمبر: 1377
1377 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُوتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبٍ فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ فَقَالَ: وَمَا لِي لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللهِ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ، لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ، وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا) قَالَتْ: بَلَى قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهى عَنْهُ قَالَتْ: فَإِنِّي أَرَى أَهْلَكَ يَفْعَلُونَهُ قَالَ: فَاذْهَبِي، فَانْظُرِي فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعَتْنَا
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اس نے کہا کہ پڑھی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1377]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 59 سورة الحشر: 4 باب وما آتاكم الرسول فخذوه»

وضاحت: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ان لوگوں کا رد ہوا جو صرف قرآن کو واجب العمل جانتے ہیں اور حدیث شریف کو واجب العمل نہیں جانتے۔ ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج اور ﴿ویریدون ان یفرقوا بین اللّٰہ ورسلہ﴾ (النساء: ۱۵) میں داخل ہیں۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید سے جدا نہیں بلکہ قرآن حکیم میں خود حدیث شریف کی پیروی کا حکم ہے۔ اس لیے حدیث کے منکر در حقیقت قرآن کے بھی منکر ہیں۔ (راز)

حدیث نمبر: 1378
1378 صحيح حديث مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ حُمَيْدٍ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، عَامَ حَجَّ، عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ، وَكَانَتْ فِي يَدَيْ حَرَسِيٍّ فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَنْهى عَنْ مِثْلِ هذِهِ، وَيَقُولُ: إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ
حمید بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا جس سال جب وہ حج کے لیے گئے ہوئے تھے تو منبر نبوی پر کھڑے ہو کر انہوں نے پیشانی کے بالوں کا ایک گچھا لیا جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا اور فرمایا: اے مدینہ والو! تمہارے علماء کدھر گئے یعنی کیا تم کو منع کرنے والے علماء ختم ہو گئے؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے اس طرح (بال جوڑنے کی) ممانعت فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر بربادی اس وقت آئی جب (شریعت کے خلاف) ان کی عورتوں نے اس طرح بال سنوارنے شروع کر دیئے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللباس والزينة/حدیث: 1378]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 54 باب حدثنا أبو اليمان»

وضاحت: دوسروں کے بال اپنے سر میں جوڑنا مراد ہے۔ دوسری حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ ۶۱ ھ سے متعلق ہے۔ جب آپ اپنی خلافت میں آخری بار حج کرنے آئے تھے۔ اس وقت اکثر علماء صحابہ وفات پا چکے تھے۔ (راز)