اللؤلؤ والمرجان
كتاب الأضاحي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
667. باب وقتها
667. باب: قربانی کا وقت
حدیث نمبر: 1280
1280 صحيح حديث جُنْدَبٍ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ ذَبَحَ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيذْبَحْ بِاسْمِ اللهِ
حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا۔ پھر قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہو تو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو تو اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1280]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 23 باب كلام الإمام والناس في خطبة العيد»

وضاحت: جمہور علماء کے نزدیک قربانی کرنا سنت ہے جس کی دلیل صحیح مسلم میں موجود حدیث ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ذوالحجہ کا چاند دیکھتا ہے اور قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ اب اس حدیث میں قربانی کو ارادہ سے معلق کیا ہے جو وجوب کی نفی کرتا ہے (بعض علماء کے ہاں قربانی کرنا واجب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قربانی کو اس شخص پر واجب کہا ہے جو زکوٰۃ کے نصاب کا مالک ہو اور مقیم ہو مسافر نہ ہو)۔

حدیث نمبر: 1281
1281 صحيح حديث الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: ضَحَّى خَالٌ لِي، يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ، قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ عِنْدِي دَاجِنًا جَذَعَةً مِنَ الْمَعَزِ قَالَ: اذْبَحْهَا، وَلَنْ تَصْلُحَ لِغَيْرِكَ ثُمَّ قَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِهِ، وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ میرے ماموں ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ!میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لئے جائز نہیں ہو گی پھر فرمایا جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اسی کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1281]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 73 كتاب الأضاحي: 8 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بردة ضح بالجذع من المعز»

حدیث نمبر: 1282
1282 صحيح حديث أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَلْيُعِدْ فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: هذَا يَوْمٌ يُشْتَهى فِيهِ اللَّحْمُ وَذَكَرَ مِنْ جِيرَانِهِ فَكَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ قَالَ: وَعِنْدِي جَذَعَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَرَخَّصَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَدْرِي أَبَلَغَتِ الرُّخْصَةُ مَنْ سِوَاهُ، أَمْ لاَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز سے پہلے قربانی کردے اسے دوبارہ کرنی چاہیے۔ اس پر ایک شخص (ابوبردہ) نے کھڑے ہوکر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دوبکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1282]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 5 باب الأكل يوم النحر»

حدیث نمبر: 1283
1283 صحيح حديث عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ أَنْتَ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالے کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہ م میں ان کو تقسیم کر دیں، ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کر لے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1283]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 40 كتاب الوكالة: 1 باب وكالة الشريكِ الشريكَ في القسمة وغيرها»