حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ آیت ”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔“(النساء:۵۰) عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1203]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 4 سورة النساء: 11 باب قوله (أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے (مقرر کئے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (لیکن اگر امیر کا حکم قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہو گا)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1204]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 1 باب قول الله تعالى (أطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم»
وضاحت: لیکن اگر امیر کا حکم قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہو گا۔ (راز)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے ملاتے ہوئے ان کی شان اور تعظیم کا جو اہتمام کیا ہے امام خطابی اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قریش اور ان کے عرب پیرو کار اور حلیف امارت کو نہیں جانتے تھے اور اپنے قبیلوں کے سرداروں کے علاوہ کسی کی اطاعت اور پیروی قبول نہیں کرتے تھے جب اسلام آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے امیر اور والی مقرر کیے تو انہیں یہ ناگوار گذرا اور بعض نے پیروی کرنے سے نکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ ان کی اطاعت میری اطاعت سے مربوط ہے اور ان کی نا فرمانی میری نا فرمانی سے مربوط ہے۔ اس طرح انہیں امراء کی اطاعت پر آمادہ کیا تاکہ کلمہ ایک رہے اور اُمت کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔ (مرتب)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لئے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے، پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1205]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 4 باب السمع والطاعة للإمام ما لم تكن معصية»
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی۔ جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لئے تو کی تھی۔ کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہو جائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1206]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 4 باب السمع والطاعة للإمام ما لم تكن معصية»
جنادہ بن ابی امیہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے، وہ مریض تھے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے کوئی حدیث بیان کیجئے جس کا نفع آپ کو اللہ تعالیٰ پہنچائے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ العقبہ میں سنا ہے کہ آپ نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپ سے بیعت کی۔ جن باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی وناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت وفرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو علانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں اگر وہ علانیہ کفر کریں تو تم کو اللہ کے پاس دلیل مل جائے گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1207]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 92 كتاب الفتن: 2 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم سترون بعدي أمورًا تنكرونها»
وضاحت: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیںحدیث کا معنی یہ ہے کہ حکمرانوں سے ان کی حکمرانی میں جھگڑا نہ کرو نہ ان کی مخالفت کرو سوائے اس کے کہ وہ اسلام کے احکام کے خلاف صریح کفر کا ارتکاب کریں۔جب ایسا کفر دیکھو تو ان کی مخالفت کرو باقی ان کے خلاف بغاوت اور خروج اور ان سے لڑنا حرام ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور ظالم ہوں۔ (مرتب)