اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساقاة
کتاب: مساقات کے مسائل
506. استحباب الوضع من الدين
506. باب: قرض سے کچھ معاف کر دینا مستحب ہے، اگر قرض دار کو تکلیف ہو
حدیث نمبر: 1003
1003 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمَا، وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الآخَرَ وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شيْءٍ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ لاَ أَفْعَلُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الْمُتَأَلِّي عَلَى اللهِ لاَ يَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَلَهُ أَيُّ ذَلِكَ أَحَبَّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروںگا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کی: میں ہی ہوں یارسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 53 كتاب الصلح: 10 باب هل يشير الإمام بالصلح»

حدیث نمبر: 1004
1004 صحيح حديث كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، فَنَادَى يَا كَعْبُ قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هذَا وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ، أَيِ الشَّطْرَ، قَالَ: لَقَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: قُمْ فَاقْضِهِ
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں عبداللہ بن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند آواز سے ہونے لگی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرے سے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ ہٹا کر باہر تشریف لائے اور پکارا: اے کعب! کعب (رضی اللہ عنہ) بولے، جی اے اللہ کے رسول! فرمایئے کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے قرض میں سے اتنا کم کردو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ تھا کہ آدھا کم کر دیں۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے (بخوشی) ایسا کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا: اچھا اب اٹھو اور اس کا قرض ادا کرو۔ (جو آدھا معاف کر دیا گیا ہے۔) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 71 باب التقاضي والملازمة في المسجد»