اللؤلؤ والمرجان
كتاب البيوع
کتاب: خریدو فروخت کے مسائل
500. باب كراء الأرض
500. باب: زمین کو کرایہ پر دینا
حدیث نمبر: 993
993 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَتْ لِرِجَالٍ مِنَّا فُضُولُ أَرَضِينَ، فَقَالُوا: نُؤَاجِرُهَا بِالثُّلثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَو لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم میں سے بہت سے اصحاب کے پاس فالتو زمین بھی تھی انہوں نے کہا تھا کہ تہائی یا چوتھائی یا نصف کی بٹائی پر ہم کیوں نہ اسے دے دیا کریں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بونی چاہئے یا پھر کسی اپنے بھائی کو ہدیہ کر دینی چاہئے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو پھر زمین اپنے پاس ہی رکھے رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 993]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 35 باب فضل المنيحة»

حدیث نمبر: 994
994 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَو لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود بوئے ورنہ اپنے کسی (مسلمان بھائی) کو بخش دے اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو اسے یوں ہی خالی چھوڑ دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 994]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 18 باب ما كان من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم يواسي بعضهم بعضًا في الزراعة والثمرة»

حدیث نمبر: 995
995 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَهى عَنِ الْمُزَابَنةِ وَالْمُحَاقَلَةِ؛ وَالْمُزَابَنَةُ اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ فِي رُءُوسِ النَّخْلِ
سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا مزابنہ درخت پر موجود کھجور اتری ہوئی کھجور کے بدلے میں خریدنے کو کہتے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 995]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 82 باب بيع المزابنة وهي بيع الثمر بالتمر»

حدیث نمبر: 996
996 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يُكْرِي مَزَارِعَهُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وعُثْمَانَ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ، ثُمَّ حُدِّثَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ؛ فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى رَافِعٍ فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَأَلَهُ؛ فَقَالَ: نَهى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّا كُنَّا نُكْرِي مَزَارِعَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الأَرْبِعَاءِ وَبِشَيْءٍ مِنَ التِّبْنِ
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر سیّدنا عمر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں کرایہ پر دیتے تھے. پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا (یہ سن کر) سیّدنا ابن عمر سیّدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، سیّدنا ابن عمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے اس پر ابن عمر نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 996]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 18 باب ما كان من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم يواسي بعضهم بعضًا في الزراعة والثمرة»

وضاحت: حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رافع بن خدیج کے اس اطلاق کی نفی اور انکار کیا ہے جو وہ کہتے تھے کہ زمین کو کرائے پر دینا منع ہے۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ منع اس صورت میں تھی جس میں لوگ ایک فاسد اور باطل شرط لگاتے تھے کہ نالیوں اور کناروں پر اور نالے کے قریبی حصے کی کھیتی مالک کی ہوگی جو کہ مجہول ہوتی تھی تو کبھی اس مشروط حصے پر آفت آتی اور کبھی مزارع کی حصے پر بیماری اترتی جن سے کسی ایک فریق کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا اس لیے منع فرمایا ورنہ غلے کے مقرر اور معین حصے پر مزارعت پر زمین دینا اور ٹھیکے پر دینا جائز ہے۔(مرتبؒ)