1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب البيوع
کتاب: خریدو فروخت کے مسائل
500. باب كراء الأرض
500. باب: زمین کو کرایہ پر دینا
حدیث نمبر: 996
996 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يُكْرِي مَزَارِعَهُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وعُثْمَانَ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ، ثُمَّ حُدِّثَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ؛ فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى رَافِعٍ فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَأَلَهُ؛ فَقَالَ: نَهى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّا كُنَّا نُكْرِي مَزَارِعَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الأَرْبِعَاءِ وَبِشَيْءٍ مِنَ التِّبْنِ
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر سیّدنا عمر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میں کرایہ پر دیتے تھے. پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا (یہ سن کر) سیّدنا ابن عمر سیّدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، سیّدنا ابن عمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے اس پر ابن عمر نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 996]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 18 باب ما كان من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم يواسي بعضهم بعضًا في الزراعة والثمرة»

وضاحت: حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رافع بن خدیج کے اس اطلاق کی نفی اور انکار کیا ہے جو وہ کہتے تھے کہ زمین کو کرائے پر دینا منع ہے۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ منع اس صورت میں تھی جس میں لوگ ایک فاسد اور باطل شرط لگاتے تھے کہ نالیوں اور کناروں پر اور نالے کے قریبی حصے کی کھیتی مالک کی ہوگی جو کہ مجہول ہوتی تھی تو کبھی اس مشروط حصے پر آفت آتی اور کبھی مزارع کی حصے پر بیماری اترتی جن سے کسی ایک فریق کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا اس لیے منع فرمایا ورنہ غلے کے مقرر اور معین حصے پر مزارعت پر زمین دینا اور ٹھیکے پر دینا جائز ہے۔(مرتبؒ)