اللؤلؤ والمرجان
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے مسائل
476. باب في الإيلاء واعتزال النساء وتخييرهن وقوله تعالى (وإِن تظاهرا عليه)
476. باب: ایلاء اور عورتوں سے الگ رہنے کا بیان اور بیویوں کو اختیار دینے کا بیان
حدیث نمبر: 944
944 صحيح حديث عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ؛ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ، وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، قَالَ: فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللهِ إِنْ كُنْتُ لأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ: فَلاَ تَفْعَلْ؛ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي، فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ به قَالَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: وَاللهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلَيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ؛ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ، إِذْ قَالَتْ امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذا قَالَ فَقُلْتُ لَهَا: مَا لَكِ وَلِمَا ههُنَا، فِيمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ؛ فَقَالَ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا بُنَيَّةُ لاَ يَغُرَّنَّكَ هذِهِ الَّتي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا (يُريدُ عَائِشَةَ) قَالَ، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمَّ سَلَمَةَ، لِقَرَابَتِي مِنْهَا، فَكَلَّمْتُهَا؛ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِي أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَأَخَذَتْنِي، وَاللهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الأَنْصَارِ، إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ؛ وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ؛ فَقَالَ: افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ: بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ، اعْتَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ؛ فَقُلْتُ: رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعائِشَةَ فَأَخَذْتُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ، وَغُلاَمٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ؛ فَقُلْتُ لَهُ: قُلْ هذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا، وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ؛ فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ، فَبَكَيْتُ؛ فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ كِسْرى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَقَالَ: أَمَا تَرْضى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيا وَلَنَا الآخِرَةُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ میں ایک آیت کے متعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے ایک سال تک تردد میں رہا ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا آخر وہ حج کے لئے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لئے وہ پیلو کے درختوں میں گئے بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا امیر المومنین امہات المومنین میں وہ کون سی دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے متفقہ منصوبہ بنایا تھا انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ تھیں میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لئے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا بیان کیا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ (سیّدنا عمر نے) بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کو فلاں فلاں طرح کرو میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو میری بیوی نے اس پر کہا خطاب کے بیٹے تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (سیدہ حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض بھی کر دیا تھا یہ سن کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہاکے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ہاں اللہ کی قسم ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں بیٹی اس عورت کی وجہ سے دھوکہ میں نہ آ جانا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے ان کا اشارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس آیا کیوں کہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں اللہ کی قسم انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں بتایا کرتا تھا اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہماکی ناک غبار آلود ہو چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا میں جب پہنچا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حبشی غلام (بلال بن رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا جب میں سیدہ ام سلمہ کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا آپ نے فرمایا کس بات پر رونے لگے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ قیصر و کسری کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 944]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 66 سورة التحريم: 2 باب (تبتغي مرضاة أزواجك»

حدیث نمبر: 945
945 صحيح حديث عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللهُ تَعَالى (إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا) حَتَّى حَجَّ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، وَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِإِدَاوَةٍ، فَتَبَرَّزَ، ثُمَّ جَاءَ فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنْهَا فَتَوَضَّأَ؛ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانَ قَالَ اللهُ تَعَالَى (إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا) قَالَ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ هُمَا عَائِشَةُ وَحَفْصَة ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنَ الأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَهُمْ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ أَوْ غَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ؛ وَكُنَّا، مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، نَغْلِبُ النِّسَاءَ؛ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ الأَنْصَارِ؛ فَصَخِبْتُ عَلَى امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي؛ قَالَتْ: وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ، فَأَفْزَعَنِي ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهَا: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ؛ فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ قَالَتْ: نَعَمْ فَقُلْتُ: قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ، أَفَتَأْمَنِينَ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِي لاَ تَسْتَكْثِرِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ وَلاَ تَهْجُرِيهِ، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ يَغُرَّنَّكَ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (يُرِيدُ عَائِشَةَ)قَالَ عُمَرُ: وَكُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ، فَرَجَعَ إِلَيْنَا عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا؛ وَقَالَ: أَثَمَّ هُوَ فَفَزِعْتُ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ؛ فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ الْيَوْمَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَا هُوَ، أَجَاءَ غَسَّان قَالَ: لاَ، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَهْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ؛ فَقُلْتُ: خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، فَصَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشْرُبَةً لَهُ، فَاعْتَزَلَ فِيهَا، وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي؛ فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ أَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ هذَا أَطَلَّقَكنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لاَ أَدْرِي، هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي الْمَشْرُبَةِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ، يَبْكِي بَعْضُهُمْ؛ فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلاً، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لِغُلاَمٍ لَهُ أَسْوَدَ، اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ؛ فَدَخَلَ الْغُلاَمُ، فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: كَلَّمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ؛ فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ فَقْلتُ لِلْغُلاَمِ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ؛ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ؛ فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلاَمَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ؛ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ؛ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا (قَالَ) إِذَا الْغُلاَمُ يَدْعُونِي فَقَالَ: قَدْ أَذِنَ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ، مَتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ؛ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ، وَأَنَا قَائِمٌ: يَا رَسُولَ اللهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ إِلَيَّ بَصَرَهُ، فَقَالَ: لاَ، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ ثُمَّ قُلْتُ، وَأَنَا قَائِمٌ: أَسْتَأْنِسُ، يَا رَسُولَ اللهِ لَوْ رَأَيْتَنِي، وَكُنَّا، مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ؛ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ لَوْ رَأَيْتَنِي، وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: لاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (يُرِيدُ عَائِشَةَ) فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَسُّمَةً أُخْرَى؛ فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ، فَواللهِ مَا رَأَيْتُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسًا وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ، وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لاَ يَعْبُدُونَ اللهَفَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: أَوَ فِي هذَا أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّ أُولئِكَ قَوْمٌ عُجِّلُوا طَيِّبَاتِهِمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ اسْتَغْفِرْ لِي فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ مِنْ أَجْلِ ذلِكَ الْحَدِيثِ، حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ، تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ قَالَ: مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حِينَ عَاتَبَهُ اللهُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّكَ كُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّمَا أَصْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا فَقَالَ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ فَكَانَ ذلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى آيَةَ التَّخَيُّرِ، فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ فَاخْتَرْتُهُ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ كُلَّهُنَّ، فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بہت دنوں تک میرے دل میں خواہش رہی کہ میں سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے متعلق پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی ان تتوبا الی اللّٰہ فقد صغت قلوبکما الخ (التحریم۴) ایک مرتبہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور ان کے ساتھ میں نے بھی حج کیا ایک جگہ جب وہ راستہ سے ہٹ کر (قضائے حاجت کے لئے) گئے تو میں بھی ایک برتن میں پانی لے کر ان کے ساتھ راستہ سے ہٹ گیا پھر انہوں نے قضائے حاجت کی اور واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا پھر انہوں نے وضو کیا تو میں نے اس وقت ان سے پوچھا یا امیر المومنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو کون ہیں جن کے متعلق اللہ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اے ابن عباس تم پر حیرت ہے (کہ تمہیں یہ معلوم نہیں) وہ عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما) ہیں پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کرنی شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے اور عوالی مدینہ میں رہتے تھے ہم نے (عوالی سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں حاضری دیتا جب میں حاضر ہوتا تو اس دن کی تمام خبریں جو وحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا) اور جس دن وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی ایسا ہی کرتے اور ہم قریشی عورتوں پر حاوی تھے لیکن جب ہم انصار کے پاس آئے تو یہ لوگ ایسے تھے کہ عورتوں سے مغلوب تھے ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنا شروع کر دیا ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگتا ہے خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض تو آپ سے ایک دن تک الگ رہتی ہیں۔ میں اس بات پر کانپ اٹھا اور کہا ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیا یقینا نامراد ہو گئی پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور (مدینہ کے لئے) روانہ ہوا پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے گھر گیا اور میں نے اس سے کہا اے حفصہ کیا تم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں کبھی (ایسا ہو جاتا ہے) میں نے اس پر کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال لیا اور نامراد ہوئی کیا تمہیں اس کا کوئی ڈر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پر غصہ ہو جائے اور پھر تم تنہا ہی ہو جاؤ گی خبردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات نہ کیا کرو نہ کسی معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا اور نہ چھوڑا کرو تمہاری سوکن جو تم سے زیادہ خوبصورت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ پیاری ہے ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جانا ان کا اشارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ شاہ غسان ہم پر حملہ کے لئے فوجی تیاریاں کر رہا ہے میرے انصاری ساتھی اپنی باری پر مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے وہ رات گئے واپس آئے اور میرے دروازے پر بڑی زور زور سے دستک دی اور کہا کہ کیا عمر گھر میں ہیں؟ میں گھبرا کر باہر نکلا تو انہوں نے کہا کہ آج تو بڑا حادثہ ہو گیا میں نے کہا کیا بات ہوئی کیا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں حادثہ اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے میں نے کہا کہ حفصہ تو خاسر و نامراد ہوئی مجھے تو اس کا خطرہ لگا ہی رہتا تھا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ جلد ہی ہو گا پھر میں نے اپنے تمام کپڑے پہنے (اور مدینہ کے لئے روانہ ہو گیا) میں نے فجر کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی (نماز کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک بالا خانہ میں چلے گئے اور وہاں تنہائی اختیار کر لی میں حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی میں نے کہا اب روتی کیوں ہو میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بالا خانہ میں تنہا تشریف رکھتے تھے۔ میں وہاں سے نکلا اور منبر کے پاس آیا اس کے گرد کچھ صحابہ کرام موجود تھے اور ان میں بعض رو رہے تھے تھوڑی دیر تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا اس کے بعد میرا غم مجھ پر غالب آ گیا اور میں اس بالا خانہ کے پاس آیا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حبشی غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اندر آنے کی اجازت لے لو غلام اندر گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر کے واپس آ گیا اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اور ان سے آپ کا ذکر کیا لیکن آپ خاموش رہے چنانچہ میں واپس چلا آیا اور پھر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے پھر میرا غم مجھ پر غالب آیا اور دوبارہ آ کر میں نے غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت لے لو اس غلام نے واپس آ کر پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیا تو آپ خاموش رہے میں پھر واپس آ گیا اور منبر کے پاس جو لوگ موجود تھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن میرا غم مجھ پر غالب آیا اور میں نے پھر آ کر غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت طلب کرو غلام اندر گیا اور واپس آ کر جواب دیا کہ میں نے آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور وہ خاموش رہے میں وہاں سے واپس آ رہا تھا کہ غلام نے مجھے پکارا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پر جس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے اس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا بان کے نشانات آپ کے پہلو مبارک پر پڑے ہوئے تھے جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں چھال بھری ہوئی تھی میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا نہیں میں (خوشی کی وجہ سے) کہہ اٹھا اللہ اکبر پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لئے کہا یا رسول اللہ آپ کو معلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے پھر جب ہم مدینہ آئے تو یہاں کے لوگوں پر ان کی عورتیں غالب تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرا دئیے پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کو معلوم ہے میں حفصہ (رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک مرتبہ گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ اپنی سوکن کی وجہ سے جو تم سے زیادہ خوبصورت اور تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز ہے دھوکہ میں مت رہنا ان کا اشارہ سیدہ عائشہ کی طرف تھا اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دئیے میں نے جب آپ کو مسکراتے دیکھا تو بیٹھ گیا پھر نظر اٹھا کر میں نے آپ کے گھر کا جائزہ لیا خدا کی قسم میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس پر نظر رکتی سوائے تین چمڑوں کے (جو وہاں موجود تھے) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی امت کو فراخی عطا فرمائے فارس وردم کو فراخی اور وسعت حاصل ہے اور انہیں دنیا دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ابن خطاب تمہاری نظر میں بھی یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں جو کچھ بھلائی ملنے والی تھی سب اسی دنیا میں دے دی گئی ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے اللہ سے مغفرت کی دعا کر دیجئے (کہ میں نے دنیاوی شان و شوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا) چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو اسی وجہ سے انتیس دن تک الگ رکھا کہ حفصہ رضی اللہ عنہانے آپ کا راز عائشہ سے کہہ دیا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ ایک مہینہ تک میں اپنی ازواج کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بہت رنج ہوا اور آپ نے ازواج سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا پھر جب ۲۹ویں رات گذر گئی تو آپ سیدہ عائشہ کے گھر تشریف لے گئے اور آپ سے ابتداء کی سیدہ عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمارے یہاں ایک مہینہ تک تشریف نہیں لائیں گے اور ابھی تو انتیس ہی دن گذرے ہیں میں تو ایک ایک دن گن رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس کا ہے۔ وہ مہینہ انتیس ہی کا تھا سیدہ عائشہ نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت تخییر (جس میں ازواج مطہرات کو آپ کے ساتھ رہنے یا الگ ہو جانے کا اختیار دیا گیا تھا) نازل کی اور آپ اپنی تمام ازواج میں سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے (اور مجھ سے اللہ کی وحی کا ذکر کیا) تو میں نے آپ کو ہی پسند کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام دوسری ازواج کو اختیار دیا اور سب نے وہی کہا جو سیدہ عائشہ کہہ چکی تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 945]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 83 باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها»