1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے مسائل
476. باب في الإيلاء واعتزال النساء وتخييرهن وقوله تعالى (وإِن تظاهرا عليه)
476. باب: ایلاء اور عورتوں سے الگ رہنے کا بیان اور بیویوں کو اختیار دینے کا بیان
حدیث نمبر: 944
944 صحيح حديث عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ؛ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ، وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، قَالَ: فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللهِ إِنْ كُنْتُ لأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ: فَلاَ تَفْعَلْ؛ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي، فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ به قَالَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: وَاللهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلَيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ؛ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ، إِذْ قَالَتْ امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذا قَالَ فَقُلْتُ لَهَا: مَا لَكِ وَلِمَا ههُنَا، فِيمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ؛ فَقَالَ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا بُنَيَّةُ لاَ يَغُرَّنَّكَ هذِهِ الَّتي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا (يُريدُ عَائِشَةَ) قَالَ، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمَّ سَلَمَةَ، لِقَرَابَتِي مِنْهَا، فَكَلَّمْتُهَا؛ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِي أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَأَخَذَتْنِي، وَاللهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الأَنْصَارِ، إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ؛ وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ؛ فَقَالَ: افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ: بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ، اعْتَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ؛ فَقُلْتُ: رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعائِشَةَ فَأَخَذْتُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ، وَغُلاَمٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ؛ فَقُلْتُ لَهُ: قُلْ هذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا، وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ؛ فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ، فَبَكَيْتُ؛ فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ كِسْرى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ فَقَالَ: أَمَا تَرْضى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيا وَلَنَا الآخِرَةُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ میں ایک آیت کے متعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے ایک سال تک تردد میں رہا ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا آخر وہ حج کے لئے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لئے وہ پیلو کے درختوں میں گئے بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا امیر المومنین امہات المومنین میں وہ کون سی دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے متفقہ منصوبہ بنایا تھا انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ تھیں میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لئے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا بیان کیا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ (سیّدنا عمر نے) بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کو فلاں فلاں طرح کرو میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو میری بیوی نے اس پر کہا خطاب کے بیٹے تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (سیدہ حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض بھی کر دیا تھا یہ سن کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہاکے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ہاں اللہ کی قسم ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں بیٹی اس عورت کی وجہ سے دھوکہ میں نہ آ جانا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے ان کا اشارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس آیا کیوں کہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں اللہ کی قسم انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں بتایا کرتا تھا اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہماکی ناک غبار آلود ہو چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا میں جب پہنچا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حبشی غلام (بلال بن رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا جب میں سیدہ ام سلمہ کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا آپ نے فرمایا کس بات پر رونے لگے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ قیصر و کسری کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 944]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 66 سورة التحريم: 2 باب (تبتغي مرضاة أزواجك»