اللؤلؤ والمرجان
كتاب صلاة الكسوف
کتاب: کسوف کی نماز کا بیان
263. باب ما عرض على النبي صلی اللہ علیہ وسلم في صلاة الكسوف من أمر الجنة والنار
263. باب: نماز کسوف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنت اور دوزخ کا پیش کیا جانا
حدیث نمبر: 524
524 صحيح حديث أَسْمَاءَ قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ، فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللهِ قُلْتُ: آيَةٌ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلاَّنِي الْغَشْيُ، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ، فَحَمِدَ اللهَ، عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلاَّ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي، حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنونَ فِي قُبُورِكُمْ مِثْلَ أَوْ قَرِيبَ (قَالَ الرَّاوِي: لاَ أَدْرِي أَيَّ ذلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ) مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ (لاَ أَدْرِي بِأَيِّهِمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ) فَيَقُولُ هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا، هُوَ مُحَمَّدٌ (ثَلاَثًا) ؛ فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا، قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ؛ وَأَمَّا المُنَافِقُ أَوِ المُرْتَابُ (لاَ أَدْرِي أَيَّ ذلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ) فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے) اتنے میں لوگ (نماز کے لئے) کھڑے ہو گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا (کیا یہ گہن) کوئی (خاص) نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! پھر میں (بھی نماز کے لئے) کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، مثل یا قرب کا کونسا لفظ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں (یعنی) فتنہ دجال کی طرح (آزمائے جاؤ گے) کہا جائے گا (قبر کے اندر کہ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کونسا لفظ فرمایا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہانے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیل لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تین بار (اسی طرح کہے گا) پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کونسا لفظ سیدہ اسماء نے کہا۔ تو وہ (منافق یا شکی آدمی) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے (بھی) وہی کہہ دیا۔ (باقی میں کچھ نہیں جانتا) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة الكسوف/حدیث: 524]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 24 باب من أجاب الفتيا بإرشاد اليد والرأس»

حدیث نمبر: 525
525 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلاً نحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ؛ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَويلاً، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَويلاً، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ ركوعًا طَويلاً وَهُوَ دُونَ الرُّكوعِ الأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَويلاً، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَويلاً، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَويِلاً، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكوعًا طَوِيلاً، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذلِكَ فَاذْكُرُوا اللهَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَعْكَعْتَ؛ فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا، وَلَوْ أَصَبْتُهُ لأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللهِ قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ
سیّدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آپ نے نماز پڑھی تھی آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جا سکتی ہے پھر آپ نے رکوع بھی لمبا کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر آپ سجدہ میں گئے سجدہ سے اٹھ کر پھر لمبا قیام کیا لیکن پہلے قیام کے مقابلے میں کم لمبا تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلہ میں کم تھا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد پھر آپ بہت دیر تک کھڑے رہے اور یہ قیام بھی پہلے سے مختصر تھا پھر (چوتھا) رکوع کیا یہ بھی بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم پھر آپ نے سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و زندگی کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا اس لئے جب تم کو معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم نے دیکھا کہ آپ (نماز میں) اپنی جگہ سے کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا ایک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک منظر کبھی نہیں دیکھا میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں کسی نے پوچھا یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے کفر (انکار) کی وجہ سے پوچھا گیا کیا اللہ تعالیٰ کا کفر (انکار) کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا انکار کرتی ہیں زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آ گئی تو فوراً یہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة الكسوف/حدیث: 525]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 16 كتاب الكسوف: 9 باب صلاة الكسوف في جماعة»

وضاحت: بعض نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔ بہر حال یہ عالم برزخ کی چیز ہے۔ جس طرح حدیث میں آگیا ہمارا ایمان ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔(راز)