حضرت نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں موذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 404]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 40 باب الرخصة في المطر والعلة، أن يصلي في رحله»
وضاحت: حدیث میں مذکور برد سے سخت سردی مراد ہے، مشقت کے یکساں موجود ہونے کی وجہ سے سخت گرمی بھی سردی کے حکم میں ہے۔ پھر بارش خواہ دن کو ہو یا رات کو حکم برابر ہے۔ لیکن آندھی تیز ہونے اور رات کے وقت چلنے کی شرط لگائی گئی ہے کیونکہ دن کی نسبت رات میں آندھی سے مشقت بڑھ جاتی ہے۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے مشقت کو عموم پر محلول کرتے ہوئے آندھی کو بارش پر قیاس کیا ہے۔ گھروں میں نماز کی رخصت عام ہے خواہ اکیلے ادا ہو یا جماعت اگرچہ اکیلے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ باجماعت نماز کا تعلق تو مسجد سے ہے۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے موذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ اشہد ان محمد رسول اللہ کے بعد حی علی الصلوٰۃ(نماز کی طرف آؤ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ صلوا فی بیوتکم (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا تھا بے شک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 11 كتاب الجمعة: 14 باب الرخصة لمن لم يحضر الجمعة في المطر»
وضاحت: سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے۔ لہٰذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔(راز)