سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 367]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 16 باب فضل صلاة العصر»
سیّدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے آپ نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی پس تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ”پس اپنے مالک کی حمد کی تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 368]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 16 باب فضل صلاة العصر»
حدیث نمبر: 369
369 صحيح حديث أبِي مُوسى، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں (وقت پر) پڑھیں (فجر اور عصر) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 369]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 26 باب فضل صلاة الفجر»
وضاحت: یعنی نماز فجر اور نماز عصر۔ کیونکہ یہ دونوں دن کے ٹھنڈے اوقات میں ہیں۔ اور اس کے کنارے ہیں۔ یعنی ابتداء وانتہا ہیں۔ ان اوقات میں تازہ اور پاکیزہ ہو چلتی ہے اور گرمی کا اثر ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح اپنے شرف اور فضیلت کے سبب فجر اور عصر ممتاز ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی فرشتوں کی حاضری کا ذکر کر کے ان کی حفاظت پر رغبت دلائی گئی ہے۔ (مرتبؒ)