سیّدناعبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی الغرض سب سلام کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 6 باب إطعام الطعام من الإسلام»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بڑے عابد وزاہد اور ماہر عالم تھے۔ آپ کی کنیت ابو محمد یا ابو عبدالرحمن تھی۔ اپنے والد سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ایک قول کے مطابق ان کا نام العاص تھا لیکن اسلام لانے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ سے بدل دیا تھا۔ ابتداء میں جب احادیث لکھنے کی اجازت نہیں تھی تو یہ خاص اجازت نبوی کے تحت حدیث لکھا کرتے تھے۔ ۶۸ہجری میں وفات پائی۔
حدیث نمبر: 25
25 صحيح حديث أَبي مُوسَى رضي الله عنه قَالَ: قَالُوا يا رَسُولَ اللهِ أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسانِهِ وَيَدِهِ
سیّدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کون سا اسلام افضل ہے؟ فرمایا وہ جس (کے ماننے والے مسلمانوں) کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 5 باب أي الإسلام أفضل»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا عبداللہ بن قیس بن مسلم رضی اللہ عنہ پنی کنیت ابو موسیٰ اشعری سے زیادہ معروف ہیں۔ غزوہ خیبر کے دوران وفد کی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ور پھر آپ کے ساتھ رہے اور جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن میں والی بنا کر بھیجا تھا پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے عادل مقرر ہوئے۔ جنگ صفین کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان حکم اور ثالث تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ترنم والی آواز دی تھی۔ آپ بہترین قاری قرآن تھے۔ ۶۳سال کی عمر میں مکہ یا کوفہ میں وفات پائی۔