سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر واقعی تم اللہ پر اس طرح بھروسا کرو جیسے اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے جو صبح (اپنے گھونسلوں سے) بھو کے نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر آتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1444]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ترمذي: 2344، ابن ماجه: 4164، أحمد:31/1»
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: اگر واقعی تم اللہ پر اس طرح بھروسا کرنے کا حق ہے۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1445]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ترمذي: 2344، ابن ماجه: 4164، أحمد:31/1»
وضاحت: تشریح: - ① پرندوں کا تو کل یہ ہے کہ وہ رزق جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ نے ہمیں آج رزق دیا ہے اسی طرح کل بھی دے گا۔ ② انسان عام طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس لیے گھبراتا ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں فقر و فاقہ سے ڈرتا ہے اسے یقین رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ نے اسے اب رزق دیا ہے مستقبل میں بھی دے گا۔ ③ توکل کا مطلب یہ نہیں کہ جائز اسباب اختیار نہ کیے جائیں۔ پرندے بھی گھونسلے چھوڑ کر نکلتے ہیں اور تلاش کر کے رزق کھاتے ہیں اسی طرح انسانوں کو حرص سے بچتے ہوئے جائز ذرائع سے رزق حاصل کرنا چاہیے۔ [سنن ابن ماجه: 5 /438]