سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میری امت امت مرحومہ ہے (یعنی اس پر خصوصی رحمت فرمائی گئی ہے)۔“[مسند الشهاب/حدیث: 967]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، جعفر بن أحمد بن عبد السلام اور محمد بن بکر بن فضل کی توثیق نہیں ملی۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: ”بے شک یہ امت امت مرحومہ ہے، اس پر آخرت میں کوئی عذاب نہیں، اس کا عذاب دنیا میں ہی قتل، فتنوں اور زلزلوں کی صورت میں بنا دیا گیا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 968]
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت، امت مرحومہ ہے، اس پر آخرت میں کوئی عذاب نہیں، اس کا عذاب دنیا میں ہی زلزلوں اور قتل کی صورت میں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 969]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 8466، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4278، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19991، 20066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7277»
ابوبكر بن محمد بن اسحٰق بن خزیمہ کہتے ہیں کہ جب میں بخاری میں داخل ہوا تو میری پہلی مجلس وہاں کے امیر اسماعیل بن أحمد کے ساتھ اہل علم کی ایک جماعت میں ہوئی، وہاں کئی احادیث کا ذکر آیا، امیر اسماعیل نے یہ حدیث: ”میری امت امت مرحومہ ہے۔۔۔۔۔“ الخ، اس سند سے بیان کی: «حدثا ابي حدثنا يزيد بن هارون عن حميد عن انس قال قال، رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔۔۔» میں نے کہا: اللہ تعالیٰ امیر کی تائید فرمائے یہ حدیث نہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے نہ حمید نے اور نہ یزید بن ہارون نے۔ امیر اسماعیل چپ ہو گیا، پھر پوچھنے لگا: وہ کیسے؟ میں نے جواب دیا: یہ حدیث سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور انہی پر اس کا مدار ہے۔ جب مجلس برخواست ہوگئی تو مجھ سے ابوعلی صالح بن محمد بغدادی کہنے لگے: ابوبکر! اللہ تعالیٰ ٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے، اس امیر نے کئی بار ہم لوگوں سے اس سند کا ذکر کیا ہے لیکن ہم میں سے کسی کو اس کی تردید کی جرٱت نہ ہو سکی۔ ابوعبد اللہ نے کہا: دراصل امیر اسماعیل بن أحمد کا مقصد اس حدیث کو اس سند سے بیان کرنا تھا: «يزيد بن هارون عن المسعود ي عن سعيد بن ابي بردة بن ابي موسي ٰ عن ابيه عن جده۔۔۔۔۔» میں کہتا ہوں: محمد بن بکر بن فضل فقیہ کی حدیث جسے ہم نے روایت کیا ہے اس کی سند حمید کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ پر جاکرختم ہوتی ہے اور یہ وہ حدیث ہے جس کی ہمارے شیخ محمد عبد الغنی نے اس کتاب میں تخریج کی ہے جس میں انہوں نے بخاری اور مسلم کی شروط پر محمد بن بکر کی صحیح روایات جمع کی ہیں، جبکہ مسعودی کی حدیث جو ہے اسے ہم نے بزار کی سند سے روایت کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 970]
تخریج الحدیث: صحيح، معرفة علوم الحديث: 374
وضاحت: تشریح: - اس حدیث مبارک میں امت محمدیہ کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے کہ اس امت پر باقی امتوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ٰ کا خصوصی انعام و مہربانی ہے، اللہ تعالیٰ ٰ نے اس امت کے لیے احکام آسان کر دیئے ہیں، ان کے اجر بڑھا دیئے ہیں، یہ بات دوسری امتوں کے لیے نہیں ہے، اسی طرح اس امت کے اہل ایمان کے لیے آخرت میں دائمی عذاب نہیں بلکہ ان کے لیے دنیا میں پیش آنے والی انفرادی اور اجتماعی آزمائش عذاب آخرت کا کفارہ ہیں حتیٰ کہ اس امت کے کسی فرد کو اگر کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بھی اس کے لیے عذاب سے کفارہ ہے۔