سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانے کو گالی نہ دو کیونکہ اللہ ہی زمانہ (یعنی زمانے کا خالق) ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 920]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 22990، 23094، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 197، الدعاء للطبراني: 2037، تذكرة الحفاظ: 1/258»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عز وجل فرماتا ہے: ابن آدم مجھے دیکھ دیتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ (یعنی زمانے کا خالق) ہوں سب اختیار میرے ہی ہاتھ میں ہے، رات اور دن کو میں ہی بدلتا ہوں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 921]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4826، 6181، 6182، 6183، 7491، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2246، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4974، 5274، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1127، 1130، والطبراني فى «الصغير» برقم: 975، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7365»
وضاحت: تشریح: - ان احادیث سے پتا چلا کہ دہر (زمانہ) کو برا کہنا جائز نہیں کیونکہ زمانہ تو ہمیشہ سے ایک ہی ہے، وہی ماہ و سال اور لیل و نہار ہیں جو پہلے تھے، ہاں لوگ اور ان کے اعمال بدلتے رہتے ہیں۔ انسان اپنی بداعمالیوں کو زمانے کی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے اور زمانے کو کوسنا شروع کر دیتا ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ٰ نے زمانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے کیونکہ زمانے پر اختیار، اس کا خالق اور اسے چلانے والا وہی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ”میں ہی زمانہ ہوں“ گویا زمانہ کو برا کہنے والا اصل میں اللہ تعالیٰ ٰ کو برا کہتا ہے جس طرح کہ کسی عمارت اور بلڈنگ میں عیب نکالنا اصل میں اس کے بنانے والے کی کمزوری بیان کرنا ہے، کسی کتاب میں اغلاط نکالنا صاحب کتاب کی کمزوری بیان کرنا ہے، اسی طرح زمانے کو برا کہنا اللہ تعالیٰ ٰ کو برا کہنا ہے اور اللہ تعالیٰ ٰ کو برا کہنا اللہ تعالیٰ کو دکھ دینا ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔