مسند الشهاب
احادیث601 سے 800
445. «اتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ»
445. کنجوسی سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا
حدیث نمبر: 685
685 - أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، أبنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْأَصْبَهَانِيُّ ثنا الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَحَامِلِيُّ، ثنا أَبُو الْبَخْتَرِيِّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا حُسَيْنٌ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ الْأَقْمَرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْلَمَةَ، نا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ: «اتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ»
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ اور اسے امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ کنجوسی سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 685]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أبو داود: 1698، وأحمد: 2/ 159 عن عبدالله بن عمرو مسلم: 2578، عن جابر»

حدیث نمبر: 686
686 - وَأَنَاهُ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَنْبَارِيُّ، أنا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، أنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ، أنا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا الْحُسَيْنُ، هُوَ الْجُعْفِيُّ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ
یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی حسین الجعفی سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 686]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه السنن الكبرى للنسائي: 11519»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث میں کنجوسی و بخل کی مذمت فرمائی گئی ہے، یہ اتنی خطر ناک بیماری ہے کہ اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب انسان کے اندر مال و دولت کی محبت حد سے بڑھ جائے تو پھر وہ کمینے پن پر اتر آتا ہے، اس میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے وہ لوگوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرے کا یہ حال ہو جائے اس معاشرے کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں، وہ کسی بھی وقت ہلاکت سے دو چار ہو سکتا ہے جیسا کہ سابقہ اقوام کے ساتھ ہوا، وہ ایک دوسرے کا مال ہتھیانے پر اتر آئے، جنگیں ہوئیں، فتنے رونما ہوئے، حرمتیں پامال ہوئیں، یہ ان کی دنیا میں ہلاکت و بربادی تھی جبکہ آخرت کی بربادی جنت سے محرومی اور جہنم میں داخلہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ‎﴾ (آل عمران: 180)
اور وہ لوگ جو اس میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ہرگز گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب قیامت کے دن انہیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی میراث ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو پورا باخبر ہے۔