ابوحوراء کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز حفظ کی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ حدیث) حفظ کی ہے کہ سچائی (میں) اطمینان ہے اور جھوٹ (میں) شک ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 275]
وضاحت: تشریح: ترمذی (2518) میں یہ روایت اس طرح ہے: ابوحوراء سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کچھ حفظ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ حدیث) حفظ کی ہے کہ ”جو چیز تجھے شک وشبہ میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تجھے شک وشبہ میں نہ ڈالے کیونکہ سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے بارے میں تیرا نفس شک وشبہ کا شکار ہو جائے تو اس چیز کو چھوڑ دو کیونکہ مومن کا دل قدرتی طور پرسچی کام اور سچے کلام سے مطمئن ہوتا ہے اور جھوٹ اور مشکوک اشیاء سے متردد ہوتا ہے لہٰذا کسی چیز کے بارے میں شک کرنا اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے، چنانچہ اس سے بچو اور کسی چیز کے بارے میں مطمئن ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل ہے لہٰذا اسے لازم پکڑو۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے کہ جھوٹ سے اطمینان ہو، گناہ سے خوشی ہو اور نیکیوں سے دل گھبرائے تو وہ دل کی آواز نہیں بلکہ نفس امارہ کی شرارت ہے۔ نفس اگر دل پر غالب آ جائے تو بہت پریشان کرتا ہے اور اگر دل نفس پر غالب آ جائے تو اطمینان وسکون ملتا ہے۔