مسند الشهاب
احادیث 1 سے 200
133. النَّاسُ كَإِبِلِ مِائَةٍ لَا تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً وَاحِدَةً
133. لوگ ان سو اونٹوں کی طرح ہیں جن میں سے سواری کے لائق تجھے ایک بھی نہ ملے
حدیث نمبر: 197
197 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أبنا أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «النَّاسُ كَإِبِلِ مِائَةٍ لَا تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً وَاحِدَةً»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ ان سو اونٹوں کی طرح ہیں جن میں سے سواری کے لائق تجھے ایک بھی نہ ملے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 197]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه: 3990، والمعجم الاوسط: 3327»

حدیث نمبر: 198
198 - أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النَّاسُ كَالْإِبِلِ الْمِائَةِ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ ان سو اونٹوں کی طرح ہیں جن میں سے آدمی کو سواری کے لائق ایک بھی نہیں ملتا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 198]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 6498، و مسلم: 2547، وترمذي: 2878»

وضاحت: تشریح:
اس حدیث مبارک میں لوگوں کی اکثریت کا حال بیان ہوا ہے کہ اکثریت عمدہ خصال اور کامل اوصاف سے محروم ہے، جیسے اونٹوں میں اچھا اونٹ جو سواری کیے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو آسانی سے اپنے سوار کو اپنی پشت پر سوار کر لے اور اس کے حکم پر چلے، بہت کم ملتا ہے، ایسے ہی عمدہ خصال اور کامل اوصاف والے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔ اکثریت خیانت باز، دھوکہ دینے والے، بے وفاء دین سے دور اور اللہ تعالیٰ ٰ کی نافرمانی کرنے والوں کی ہے، امانت دار، با وفا اور دین پر چلنے والے بہت کم ہیں۔
اگر ہم مجموعی لحاظ سے دیکھیں تو بھی یہی نظر آتا ہے کہ زمین پر ہمیشہ اکثریت برے اور نا پسندیدہ لوگوں ہی کی رہی ہے، اور اگر بات صرف امت محمدیہ کی ہو تو مراد قرون ثلاثہ کے بعد والے لوگ ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بعد آئے۔ قرون ثلاثہ میں اچھے لوگ زیادہ اور برے بہت کم تھے، مگر بعد میں معاملہ بالکل برعکس ہو گیا کہ بروں کی اکثریت اور اچھوں کی اقلیت رہی ہے، آج بھی یہی صورت حال۔ ہے کہ مسلمان ہر جگہ بکثرت موجود ہیں مگر حقیقی مسلمان بہت ہی کم نظر آ ئیں گے۔
ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو باتیں بتائی تھیں۔ ان دونوں میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی (کہ وہ واقع ہو گئی ہے) اور دوسری (کے واقع ہونے) کا مجھے انتظار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت (دیانت داری کی صفت) لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری۔ اور قرآن نازل ہوا، ہم نے قرآن بھی سیکھا اور سنت بھی سیکھی (چنانچہ یہ خوبی مزید پختہ ہو گئی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھ جائے گی، اس کا ایک نشان رہ جائے گا، جیسے ایک نقطے کا نشان۔ پھر وہ سوئے گا تو (باقی ماندہ) امانت بھی اس کے دل سے اٹھ جائے گی، تو اس کا اثر ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تیرے پاؤں پر انگارہ گر پڑے اور وہ پھول جائے۔ تجھے وہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ (یہ کہتے ہوئے) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لے کر اپنی پنڈلی پر گرائیں۔
آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: پھر لوگ ایک دوسرے سے لین دین کیا کریں گے اور کوئی بھی امانت ادا نہیں کرے گا حتیٰ کہ کہا جائے گا: فلاں قبیلے میں ایک دیانت دار آدمی بھی ہے اور حتیٰ کہ ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا: وہ کتنا عقل مند ہے! کتنا باہمت ہے! کتنا سمجھ دار ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے جتنا بھی ایمان نہیں ہوگا۔ اور (سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا): مجھے پر ایک وقت وہ تھا کہ مجھے کسی سے لین دین کرنے میں کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا ایمان اسے میرے پاس (میرا حق ادا کرنے کے لیے) واپس لے آئے گا، اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا عامل (ذمہ دار) اسے میرے پاس لے آئے گا۔ لیکن آج تو (یہ حالت ہے کہ) میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید و فروخت نہیں کرتا۔ [بخاري: 6497، ابن ماجه: 3054]