سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو رخصتی کا وعظ معلوم ہوتا ہے، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اور دن برابر ہیں، میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا، وہ ہلاک ہو گا، اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا، وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم میری جو سنتیں جانتے ہو اور خلفائے راشدین مھدیین کی سنتوں کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور امیر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لو خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو، ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کر لو، اور نو ایجاد چیزوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ہر نو ایجاد چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17144]