561/724 عن أوسط بن إسماعيل قال: سمعت أبا بكر الصديق رضي الله عنه بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم قال: قام النبي صلى الله عليه وسلم عام أول مقامي هذا – ثم بكى أبو بكر – ثم قال:" عليكم بالصدق؛ فإنه مع البر، وهما في الجنة، وإياكم والكذب، فإنه مع الفجور، وهما في النار. وسلوا الله المعافاة. فإنه لم يؤتى بعد اليقين خير من المعافاة. ولا تقاطعوا، ولا تدابروا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخواناً".
اوسط بن اسماعیل سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا انہوں نے کہا: ہجرت کے پہلے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے جہاں میں کھڑا ہوں یہ کہہ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اس کے بعد کہا: سچائی کو لازم کر لو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں ہیں اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ فجور کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں ہیں اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو بیشک یقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے جو انسان کو دی جاتی ہے اور آپس میں قطع رحمی نہ کرو اور ایک دوسرے کا بائیکاٹ نہ کرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 561]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 562
562/726 عن العباس بن عبد المطلب، قلت: يا رسول الله! علمني شيئاً أسأل الله به. فقال:"يا عباس! سل الله العافية"، ثم مكث ثلاثاً، ثم جئت فقلت: علمني شيئاً أسأل الله به يا رسول الله!. فقال:" يا عباس! يا عم رسول الله! سل الله العافية في الدنيا والآخرة".
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے میں اس کے ساتھ اللہ سے سوال کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس! اللہ سے عافیت مانگا کرو، پھر تین دن رکے رہے۔ پھر میں آیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ سکھا دیجیے، میں اللہ سے سوال کروں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرو۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 562]