307/398 عن أنس بن مالك؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخواناً، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ رکھو، ایک دوسرے سے بائیکاٹ نہ کرو اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بائیکاٹ جاری رکھے، نہ پیٹھ پیچھے برا کہو، اور اللہ کے بندو آپس میں بھائی بن کر رہا کرو، کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں کہ کسی بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 307]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 308
308/399 عن أبي أيوب(1) صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لأحد أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال؛ يلتقيان فيصدّ هذا ويصد هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ عرصے تک بائیکاٹ جاری رکھے۔ وہ دونوں آپس میں ملیں اور یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 308]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 309
309/400 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا تباغضوا، ولا تنافسوا، وكونوا عباد الله إخواناً".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں بغض نہ رکھا کرو، اور آپس میں حسد نہ کیا کرو اور نہ منافقت کیا کرو، اللہ کے بندوں(آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 309]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 310
310/401 عن أنس؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"ما تواد اثنان في الله جل وعز أو في الإسلام، فيفرق بينهما ؛ أول(2) ذنب يحدثه أحدهما".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو اشخاص جب آپس میں اللہ عزوجل کے لیے یا فرمایا کہ اسلام کے لیے محبت کرتے ہیں تو ان کے درمیان وہ پہلا گناہ جدائی ڈالتا ہے جس کا ارتکاب ان میں سے کوئی ایک کرتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 310]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 311
311/401 عن هشام بن عامر الأنصاري- ابن عم أنس بن مالك، وكان قُتل أبوه يوم أحد- أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل لمسلم أن يصارم مسلماً فوقاً ثلاث، فإنهما ناكبان عن الحق ما داما على صرامهما وإن أولهما فيئاً يكون كفارة عنه سبقُهُ بالفيء، وإن ماتا على صرامهما لم يدخلا الجنة جميعاً أبداً، وإن سلم عليه فأبى أن يقبل تسليمه وسلامه، ردّ عليه الملك، وردّ على الآخر الشيطان".
ہشام بن عامر انصاری سے مروی ہے جو انس بن مالک کے چچا زاد بھائی ہیں جن کے والد احد کے دن شہید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ جب تک یہ دونوں اپنے قطع تعلقی پر قائم ہیں حق سے رو گرداں ہی ہوں گے۔ اور جو پہلے رجوع کرے گا اس کا پہلے رجوع کرنا اس گناہ کا کفارہ بن جائے گا اگر وہ اپنے قطع تعلقی کی حالت میں مر گئے تو وہ دونوں کبھی بھی جنت میں اکٹھے داخل نہیں ہوں گے اور اگر وہ اس کو سلام کرے تو وہ نہ تو اس کے سلام کو اور نہ اس کے سلام کرنے کو قبول کرے تو فرشتہ اس کو جواب دیتا ہے اور دوسرے کو شیطان جواب دیتا ہے۔ ان دونوں میں جس نے پہلے اس صورت حال کو ختم کیا اس کا یہ فعل پچھلی غلطی کا کفارہ ہو جائے گا، اور اگر ان دونوں کی اسی حالت میں موت ہو گئی تو یہ دونوں ہی جنت میں کبھی نہ جا سکیں گے، اور اگر ایک نے سلام کیا اور دوسرے نے اس کا سلام قبول کرنے سے انکار کیا تو فرشتہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے اور دوسرے کو شیطان جواب دیتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 311]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 312
312/403 عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لأعرف غضبك ورضاك". قالت: قلتُ وكيف تعرف ذلك يا رسول الله؟ قال:" إنك إذا كنت راضيةً، قلتِ: بلى، ورب محمدٍ، وإذا كنت ساخطة! قلتِ: لا، ورب إبراهيم".قالت: أجل! لستُ أهاجر إلا اسمك.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جانتا ہوں تم کب ناراض ہوتی ہو اور کب راضی ہوتی ہو۔“ میں نے عرض کیا آپ کو یہ کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟ فرمایا: ”بیشک! جب تم خوش ہوتی ہو تو تم (قسم کھاتے وقت) یہ کہتی ہو، ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: ہاں! ابراہیم کے رب کی قسم“، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: جی ہاں! ایسا ہی ہے یا رسول اللہ، میں صرف آپ کے نام کا مقاطعہ کرتی ہوں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 312]