صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم: احادیث 250 سے 499
167.  باب هجرة الرجل
حدیث نمبر: 306
306/397 عن عوف بن الحارث بن الطفيل- وهو ابن أخي عائشة لأمها- أن عائشة رضي الله عنها حُدثت: أن عبد الله بن الزبير قال في بيع- أو عطاء- أعطته عائشة:" والله لتنتهينّ عائشة، أو لأحجرن عليها". فقالت:" أهو قال هذا؟ قالوا: نعم. قالت عائشة:"فهو لله نذرٌ أن لا أكلم ابن الزبير كلمة أبداً" فاستشفع ابن الزبير بالمهاجرين حين طالت هجرتها إياه. فقالت: والله! لا أشفع فيه أحداً أبداً، ولا أحنّث نذري الذي نذرت أبداً. فلما طال على ابن الزبير كلّم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الأسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة. فقال لهما: أنشدكما الله إلا أدخلتماني على عائشة؛ فإنها لا يحلّ لها أن تنذر قطيعتي، فأقبل به المسور وعبد الرحمن، مشتملين عليه بأرديتهما، حتى استأذنا على عائشة. فقالا: السلام عليك(1) ورحمة الله وبركاته، أندخل؟ فقالت عائشة: ادخلوا. قالا: كلنا يا أم المؤمنين؟ قالت: نعم: ادخلوا كلكم. ولا تعلم عائشة أن معهما ابن الزبير، فلما دخلوا، دخل ابن الزبير في الحجاب، واعتنق عائشة وطفق يناشدها يبكي، وطفق المسور، وعبد الرحمن يناشدان عائشة إلا كلمته وقبلت منه، ويقولان: قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم:"نهى عمّا قد علمت من الهجرة، وإنه لا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليالٍ". قال: فلمّا أكثروا التذكير والتحريج طفقت تذكّرهم وتبكي. وتقول: إني قد نذرت والنذر شديد، فلم يزالوا بها حتى كلمت ابن الزبير، ثم أعتقت بنذرها أربعين رقبة، ثم كانت تذكرُ بعد ما أعتقت أربعين رقبة فتبكي حتى تبلّ دموعها خمارها.
عوف بن حارث بن طفیل جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی کے بیٹے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار سیدنا عبداللہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے کسی خرید و فروخت یا عطیہ پر کہا: اللہ کی قسم! یا تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے باز آئیں ورنہ میں ان پر پابندی لگا دوں گا، (یہ بات جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہنچی) تو انہوں نے کہا: کیا عبداللہ بن زبیر نے یہ کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (میں) اللہ کے لیے یہ نذر مانتی ہوں کہ آئندہ کبھی ابن زبیر سے ایک بات بھی نہیں کروں گی، جب عائشہ رضی اللہ عنہا کا زبیر رضی اللہ عنہ سے بائیکاٹ لمبا ہو گیا تو انہوں نے مہاجرین سے سفارش کرائی، عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا: اللہ کی قسم میں اس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کروں گی، اور جو میں نے نذر مانی ہے میں اسے کبھی بھی نہیں توڑوں گی۔ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر یہ دورانیہ لمبا ہو گیا تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن مسور بن عبد یغوث سے بات کی، ان دونوں کا تعلق بنی زہرہ سے تھا ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم مجھے ضرور عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلو۔ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میرے ساتھ قطع تعلقی کی نذر مانے، تو مسور اور عبدالرحمان انہیں لے کر چلے اور انہوں نے اپنے اوپر چادریں اوڑھیں ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگی تو انہوں نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ کیا ہم آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہاں تم سب داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: اے ام المؤمنین ہم سب آ جائیں؟ انہوں نے کہا: ہاں تم سب ہی آ جاؤ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ عبداللہ بن زبیر بھی ہیں۔ جب وہ داخل ہوئے تو عبداللہ بن زبیر پردے کے اندر گھس گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گلے لگایا اور ان کو واسطے دینے لگے اور رونے لگے اور مسور اور عبدالرحمن عائشہ رضی اللہ عنہا کو واسطے دینے لگے کہ ان سے بات کر لیں اور ان کی معذرت کو قبول کر لیں اور کہنے لگے: آپ کو معلوم ہی ہے کہ اللہ کے رسول نے بائیکاٹ سے منع کیا ہے جو آپ جانتی ہیں۔ اور آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بائیکاٹ جاری رکھے۔ جب انہوں نے نصیحت اور دباؤ زیادہ کیا تو وہ بھی ان کو اپنی قسم اور نذر یاد دلاتی تھیں اور روتی تھیں اور کہتیں تھیں: میں نے بہت پکی نذر مانی ہے۔ وہ مسلسل ان پر دباؤ ڈالتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر سے بات کر لی۔ پھر اپنی نذر کے بدلے چالیس غلام آزاد کیے۔ پھر چالیس غلام آزاد کرنے کے بعد اس واقعے کو یاد کرتیں تو روتیں یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے ان کا دوپٹہ تر ہو جاتا۔ اس پر ابن الزبیر نے مسور بن مخذہہ اور عبدلرحمان بن عبد یغوث سے کہ یہ دونو ں بنی زہرہ کے تھے، بات کی اور ان سے کہا کہ تم سے میں اللہ کے لئے درخواست کرتا ہوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ مجھ سے قطع تعلق کی نظر من لیں، مسور اور عبدلرحمان اپنی چادر میں عبدللہ ابن الزبیر کو چھپا کر وہاں پہنچے اور عائشہ رضی اللہ عنہ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، کہا: اسلام علیکم علی النبی و رحمتہ اللہ و برکاتہ، کیا ہم لوگ اندر آ سکتے ہیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم لوگ آ جاؤ، اور دونوں نے پھر کہا: ہم سب لوگ آ جائیں؟ کہا:، ہاں تم سب لوگ آ جاؤ، عائشہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ تھی کہ ان کے ساتھ ابن الزبیر بھی ہیں۔ جب سب لوگ اندر آئے تو ابن الزبیر پردہ کے اندر گئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے شانہ پر سر رکھ کر منت کرنے اور رونے لگے اور پردہ کے باہر سے مسور اور عبدلرحمان عائشہ رضی اللہ عنہ پر اصرار کرنے لگے کہ ضرورت عذر قبول کر لیں، اور باتیں کریں، اور ان دونوں نے کہنا شرو ع کیا، آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلق کر لینے کی ممانعت فرمائی ہے اور کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے کسی مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے، عوف نے بیان کیا کہ جب ان لوگوں نے بہت سمجھایا اور ان کو پریشان کر دیا تو وہ بھی سمجھنے لگیں، اور رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ میں نے نظر مانی ہے اور نذر سخت ہے، یہ لوگ منت کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے عبدللہ ابن الزبیر سے باتیں کیں، اور پھر اپنی نذر کے کفارہ کے طور پر چالیس نفوس کو آزاد کیا، اس کے بعد جب چالیس نفوس کو آزاد کر چکی ہیں پھر بھی جب اس کا ذکر کرتی تھیں تو ان کے آنسو ان کی اوڑھنی کو تر کر دیتے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 306]
تخریج الحدیث: (صحيح)