210/276(صحيح)- عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ليس الغنى عن كثرة العرض، ولكن الغنى غنى النفس".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غنا زیادہ سامان کی وجہ سے نہیں ہوتا لیکن اصلی غنا، دل کا غنی ہونا ہوتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 210]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 211
211/277 (صحيح) عن أنس قال:" خدمت النبي صلى الله عليه وسلم عشر سنين، فما قال لي: أف قط، وما قال لي لشيء لم أفعله: ألا كنت فعلته؟ ولا لشيء فعلته: لم فعلته؟".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے دس سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے اف تک نہ کہا اور جو چیز میں نے نہ کی اس کے متعلق کبھی نہ کہا کہ تم نے کیوں نہ کیا؟ اور جو کام میں نے کر لیا اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا تم نے یہ کیوں کیا؟ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 211]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 212
212/278 عن أنس بن مالك قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم رحيماً، وكان لا يأتيه أحدٌ إلا وعده، وأنجز له إن كان عنده، وأقيمت الصلاة، وجاءه أعرابي فأخذ بثوبه فقال: إنما بقي من حاجتي يسيرة؛ وأخاف أنساها، فقام معه حتى فرغ من حاجته، ثم أقبل فصلّى".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل تھے۔ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اپنی ضرورت کے لیے) آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے وعدہ کر لیتے اور اسے پورا کرتے، بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا۔ (ایک بار) نماز کی اقامت کہی گئی اور ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا: میری ایک تھوڑی سی ضرورت باقی رہ گئی ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں اسے بھول نہ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکے ساتھ چلے گئے یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کر دی اور اس کے بعد آ کر نماز پڑھائی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 213
213/279(صحيح)- عن جابر قال:" ما سئل النبي صلى الله عليه وسلم شيئاً فقال: لا"(1).
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سوال کے جواب میں ”نہیں“ کبھی نہیں فرمایا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 214
214/280(صحيح الإسناد)- عن عبد الله بن الزبير قال: ما رأيت امرأتين أجود من عائشة وأسماء، وجودهما مختلف، أما عائشة فكانت تجمع الشيء إلى الشيء، حتى إذا كان اجتمع عندها قسمت، وأما أسماء فكانت لا تمسك شيئاً لغد.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے کوئی دو عورتیں ایسی نہیں دیکھیں جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ سخاوت کرنے والی ہوں۔ ان کی سخاوت کا حال مختلف تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مال کو جمع کرتی رہتی تھیں، جب ان کے پاس کچھ مال جمع ہو جاتا تو تقسیم کر دیا کرتی تھیں، اور اسماء رضی اللہ عنہا کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کل کے لئے کچھ اٹھا نہیں رکھتی تھیں (یعنی روز کا روز خرچ کر دیتی تھیں)۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 214]