81. جو اپنے غلام کو طمانچہ مارے اسے چاہیے کہ اسے آزاد کر دے لیکن یہ واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 132
132/176 عن هلال بن يساف قال: كنا نبيع البزّ في دار سويد بن مقرن، فخرجت جارية، فقالت لرجل شيئاً، فلطمها ذلك الرجل. فقال له سويد بن مقرن: ألطمت وجهها؟! لقد رأيتني سابع سبعة وما لنا إلا خادم فلطمها بعضنا، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يعتقها.
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سوید بن مقرن کے گھر میں کپڑا فروخت کر رہے تھے۔ ایک لونڈی نکلی، اس نے کسی آدمی کو کو ئی بات کہہ دی۔ اس آدمی نے لونڈی کو طمانچہ مار دیا تو سوید بن مقرن نے اس سے کہا: کیا تم نے اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا؟ میں نے اپنے آپ کو سات اشخاص میں سے ایک پایا (یعنی ہم لوگ سات آدمی تھے) اور ہمارے پاس ایک ہی خادم تھا۔ ہم میں سے ایک آدمی نے اسے طمانچہ مار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے آزاد کر دیا جائے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 132M
132b/176 لطمت مولی لنا فقير، فدعاني أبي فقال (له): اقتص، كنا ولد مقرن سبعة، لنا خادم فلطمها أحدنا، فذكر ذلك للنبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ”مرهم فليعتقوها.“ فقيل للنبي صلی اللہ علیہ وسلم: ليس لهم خادم غيرها. قال: فليستخدموها، فإذا استغنوا خلوا سبيلها / ۱۷۸.
حدیث نمبر: 132MM
132c/176 وفي أخرى عن أبي شعبة عن سويد بن مقرن المزني - ورأى رجلا لطم غلامه - فقال: أما علمت أن الصورة محرمة؟ رأيتني وإني سابع سبعة إخوة، على عهد أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، ما لنا إلا خادم، فلطمه أحدنا، فأمرنا النبي صلی اللہ علیہ وسلم ان نعتقه / ۱۷۹.
حدیث نمبر: 133
133/180 عن زاذان أبي عمر، قال: كنا عند ابن عمر، فدعا بغلام له كان ضربه فكشف عن ظهره، فقال: أيوجعك؟ قال: لا. فأعتقه، ثم رفع عوداً من الأرض فقال: ما لي فيه من الأجر ما يزن هذا العود؟ فقلت: يا أبا عبد الرحمن! لم تقول هذا؟ قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول – أو قال -:"من ضرب مملوكه حداً لم يأته، أو لطم وجهه، (وفي لفظ:" من لطم عبده أو ضربه حداً لم يأته/177) فكفارته أن يُعتقه".
ابوعمر زاذان سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے۔ تو انہوں نے اپنے غلام کو بلایا جسے انہوں نے مارا تھا۔ انہوں نے اس کی پیٹھ سے کپڑا ہٹایا۔ کہا: کیا تمہیں تکلیف ہو رہی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو انہوں نے غلام کو آزاد کر دیا، پھرتنکا زمین سے اٹھا کر کہا کہ مجھے اس کا اتنا بھی اجر نہیں ملے گا جتنا اس تنکے کا وزن ہے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمان! آپ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے غلام کو بےقصور حد لگائے یا اس کی چہرے پر طمانچہ مار دے“ اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے اپنے غلام کے چہرے پر تھپڑ مارا یا اسے ایسی حد لگائی جس کا اس نے ارتکا ب نہیں کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 133]