81. جو اپنے غلام کو طمانچہ مارے اسے چاہیے کہ اسے آزاد کر دے لیکن یہ واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 133
133/180 عن زاذان أبي عمر، قال: كنا عند ابن عمر، فدعا بغلام له كان ضربه فكشف عن ظهره، فقال: أيوجعك؟ قال: لا. فأعتقه، ثم رفع عوداً من الأرض فقال: ما لي فيه من الأجر ما يزن هذا العود؟ فقلت: يا أبا عبد الرحمن! لم تقول هذا؟ قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول – أو قال -:"من ضرب مملوكه حداً لم يأته، أو لطم وجهه، (وفي لفظ:" من لطم عبده أو ضربه حداً لم يأته/177) فكفارته أن يُعتقه".
ابوعمر زاذان سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے۔ تو انہوں نے اپنے غلام کو بلایا جسے انہوں نے مارا تھا۔ انہوں نے اس کی پیٹھ سے کپڑا ہٹایا۔ کہا: کیا تمہیں تکلیف ہو رہی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو انہوں نے غلام کو آزاد کر دیا، پھرتنکا زمین سے اٹھا کر کہا کہ مجھے اس کا اتنا بھی اجر نہیں ملے گا جتنا اس تنکے کا وزن ہے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمان! آپ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے غلام کو بےقصور حد لگائے یا اس کی چہرے پر طمانچہ مار دے“ اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے اپنے غلام کے چہرے پر تھپڑ مارا یا اسے ایسی حد لگائی جس کا اس نے ارتکا ب نہیں کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 133]