سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی، پھر فرمایا: یہ ایسا وقت ہے کہ آدمیوں سے علم چھینا جا رہا ہے یہاں تک کہ اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے۔ زیاد بن لبيد انصاری نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سے کس طرح علم چھینا جائے گا حالانکہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور قسم اللہ کی ہم اس کو ضرور پڑھیں گے اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی پڑھائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے زیاد! تمہیں تمہاری ماں روئے، میں تمہیں مدینہ کے سمجھ داروں میں شمار کرتا تھا، یہ توراة و انجیل یہود و نصاری کے پاس ہے مگر ان کے کیا کام آتی ہے۔“ جبیر نے کہا: میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا: آپ نے اپنے بھائی ابودرداء کی بات سنی؟ اور ان کا قول میں نے ذکر کیا، انہوں نے جواب دیا: ابودرداء نے صحیح کہا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ علم سے پہلے لوگوں کے پاس سے جو چیز اٹھے گی وہ خشوع ہے، قریب ہے کہ تم مسجد میں داخل ہو گے اور اس میں تمہیں کوئی خشوع والا آدمی دکھائی نہ دے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 295]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ وفيه غفلة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 296] » اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں، اور اسے [ترمذي 2653] نے روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [المستدرك 99/1 وقال صحيح الاسناد و وافقه الذهبي] اور اس کے دوسرے بھی شواہد ہیں جن سے اس کو تقویت ملتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 992] و [صحيح ابن حبان 4572]
مکحول نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت شریفہ تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ...﴾»[فاطر: 28/35]”اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور زمین و آسمانوں کے سب لوگ حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعائے خیر کرتی ہیں ان کے لئے جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 296]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «هكذا جاء مرسلا، [مكتبه الشامله نمبر: 297] » یہ مرسل روایت ہے، لیکن [ترمذي 2686] میں موصولاً مروی ہے۔ دیکھئے: [المعجم الطبراني الكبير 278/8، 7911] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن غریب کہا ہے۔
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کوئی آدمی اس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے سے اعلیٰ پر حسد نہ کرے اور اپنے سے کم تر کو حقیر نہ سمجھے اور اپنے علم کی قیمت نہ مانگے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 297]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده ليث بن أبي سليم وهو ضعيف وفيه جهالة الرجل الراوي عن ابن عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 298] » اس اثر کی سند میں کئی علتیں ہونے کے سبب ضعیف ہے، گرچہ علماء نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 16477] ، [حلية الأولياء 306/1] ، [جامع بيان العلم 858] لیکن اس کا شاہد ہے۔ دیکھئے اثر رقم (300)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 287 سے 297) دینی امور میں اپنے سے اعلی پر اس طرح حسد کرنا کہ الله تعالیٰ مجھے بھی ایسا علم عطا کرے یا اتنا مال دے کہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کروں، یہ جائز ہے، جیسا کہ حدیث: «لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ ......»[بخاري 73] ، [مسلم 816] میں ہے۔
مسعر سے روایت ہے: میں نے عبدالأعلىٰ التیمی کو کہتے سنا: جس کسی کو ایسا علم دیا گیا جو اسے رلا نہ سکے، اس کے لئے مناسب ہے کہ اسے ایسا علم ہی نہ ملے جو اسے فائدہ دے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کی تعریف فرمائی ہے، پھر انہوں نے پڑھا: «﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ (إلي قوله تعالٰي) يَبْكُونَ ....﴾»[الإسراء: 107/17-109]”بیشک وہ لوگ جنہیں اس سے قبل علم دیا گیا ہے، ان کے پاس جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے، تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلاشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہے، وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 298]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 299] » اس روایت کی سند جید ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17209] ، [حلية الأولياء 88/5] ، [الزهد لابن المبارك 125]
وضاحت: (تشریح حدیث 297) ان آیات کے آخر میں اہلِ علم کی صفت یہ بیان کی کہ وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور یہ ہی محل شاہد ہے۔
ابوحازم نے کہا: تم اس وقت تک عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ تین صفات تمہارے اندر نہ پائی جائیں: جو تم سے اعلیٰ ہیں ان پر ظلم نہ کرو، اپنے سے کم علم کو حقیر نہ سمجھو، اور اپنے علم سے دنیا نہ خریدو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 299]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «مبارك بن فضال يدلس تدليس تسوية وقد عنعن. فالإسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 300] » اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 243/3] ، نیز اس معنی کی روایت حدیث نمبر (297) میں گزر چکی ہے جو ایک دوسرے کی شاہد ہو سکتی ہے۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جب تک متعلم نہ ہو عالم نہیں بن سکتے، اور جب تک اس علم کے عامل نہ ہو عالم نہیں ہو سکتے، اورتم کو گناہ کے لئے کافی ہے کہ تم جھگڑالو رہو، تمہارے گناہ کو کافی ہے کہ تم گھمنڈی رہو، اور تمہارے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ تم اللہ کی ذات کے سوا باتیں بناتے رہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 300]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 301] » اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [زهد لوكيع 220] ، [اقتضاء العلم 16] ، [جامع بيان العلم 1120]
عمران منقری نے کہا کہ میں نے ایک دن حسن رحمہ اللہ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے کہی تھی کہ اے ابوسعید! فقہاء تو اس طرح نہیں کہتے، انہوں نے جواب دیا: تمہاری خرابی ہو، کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے، فقیہ وہ ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہو، آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہو، دین کے معاملے میں بصیر ہو، اور اپنے رب کی عبادت پر قائم و دائم ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 301]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 302] » اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17037] ، [حلية الاولياء 147/2] ، [زهد ابن مبارك 30] ، [الفقيه والمتفقه 1066]
وضاحت: (تشریح احادیث 298 سے 301) یعنی عالم بننے کے لئے طالبِ علم اور باعمل ہونا ضروری ہے، اور خالی بحث و مباحثہ، علم میں تعلیٰ، غرور و گھمنڈ رکھنا، اور دینی باتوں کے بجائے فالتو بکواس میں لگے رہنا، یہ سب گناہ ہیں، ایک عالم کو ان سب سے بچنا چاہئے۔
سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا: اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے؟ فرمایا: جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 302]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده فيه النضر بن إسماعيل وليس بالقوي وهذا إسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 303] » اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ ابونعیم نے [الحلية 169/3] میں اسے ذکر کیا ہے، نیز آیت شریفہ «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾»[فاطر: 28/35] سے اس کا استدلال کیا جاسکتا ہے۔
مجاہد نے کہا: سب سے بڑا فقیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 303]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 304] » اس اثر کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، اور یہ [مصنف ابن أبى شيبه 17301] ، [حلية الأولياء 280/3] و [جامع بيان العلم 1547] میں موجود ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صحیح معنوں میں فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے، اور انہیں اللہ کی نافرمانی کی اجازت نہ دے، اور اللہ کے عذاب سے انہیں مامون قرار نہ دے، اور قرآن سے بےرغبتی نہ کرے، یقیناً اس عبادت میں کوئی چیز نہیں جس میں علم و بصیرت نہ ہو، اور جس علم میں فہم نہ ہو، وہ علم ہی نہیں، نہ وہ قراءت قراءت ہے جس میں تدبر (سوچ و فکر) نہ ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 304]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في هذا الإسناد علتان: الأولى: ضعف ليث بن أبي سليم والثانية: الانقطاع يحيى بن عباد بن شيبان لم يدرك عليا فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 305] » اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، اور اس میں انقطاع بھی ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس 69] ، [العلم 143] ، [حلية الأولياء 77/1] ، [الفقيه 161/2] ، [جامع بيان العلم 1510] ، [سلسلة الأحاديث الضعيفة 734]
سیدنا على رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حقیقی معنوں میں فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے، اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے مامون قرار دے، اور نہ انہیں اللہ کی نافرمانی کی اجازت دے، جس عبادت میں علم نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں، اور جس علم میں فہم نہیں اس میں بھی کوئی بھلائی نہیں، اور جس قرأت میں تدبر نہیں اس میں بھی کوئی خیر نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 305]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 306] » اس اثر کی سند بھی ضعیف ہے، جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے، اور موقوف بھی ہے، لیکن اس کا شمار اقوال زرین میں ہوسکتا ہے۔
کعب (الأحبار) نے کہا: پہلی کتب میں ایسی قوم کی صفت پاتا ہوں جو بنا عمل کے لئے تعلیم حاصل کریں گے، اور عبادت کے علاوہ میں فقہ سیکھیں گے، اور اخروی عمل کے بدلے دنیا طلب کریں گے، جو بھیڑ کی کھال پہنیں گے، دل ان کے ایلوے سے زیادہ کڑوے ہوں گے، وہ میرے ذریعے دھوکہ دہی کریں گے اور مجھ ہی کو دھوکہ دیں گے، میں نے اپنی قسم کھائی ہے کہ ان کے لئے ایسا فتنہ برپا کروں گا جس میں حلیم و بردبار بھی حیران ہوں گے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 306]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 307] » اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [شعب الإيمان 1918] ، [جامع بيان العلم 1141] لیکن ان کی سند میں بھی انقطاع ہے۔
ہرم بن حیان نے کہا: فاسق عالم سے بچو، یہ خبر جب سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہیں لکھا اور وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے ڈر گئے، پوچھا فاسق عالم سے تمہاری مراد کیا ہے؟ ہرم نے جواب دیا: والله يا امیر المومنین! میری مراد اس سے خیر ہی تھی، کوئی امام ایسا ہوتا ہے کہ علم کی بات تو کرتا ہے لیکن کام فسق و فجور کے کرتا ہے، اور لوگوں کو شبہ میں ڈال دیتا ہے، پس وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 307]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 308] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 131/7] ۔ نیز ذہبی نے اس روایت کو سیر میں بلا سند ذکر کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں سے جو اپنے دین کی تعظیم کرنا چاہے وہ سلطان کے پاس نہ جائے، اور عورتوں کے ساتھ خلوت نہ کرے، اور خواہش کے بندوں سے جھگڑا نہ کرے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 308]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس والإسناد منقطع وربما كان معضلا، [مكتبه الشامله نمبر: 309] » یہ روایت منقطع ہے، اور ولید بن مسلم مدلس ہیں اور ”عن“ سے روایت کیا ہے جس میں عدم لقاء کا احتمال ہے، اس لئے یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہوسکتا، نیز صرف امام دارمی نے اسے ذکر کیا ہے۔
یونس (بن عبید) نے کہا کہ میمون بن مہران نے مجھے لکھا: دین میں جنگ و جدال سے بچو، اور عالم و جاہل کسی سے جھگڑا نہ کرو، عالم سے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے علم کو تم سے بچا لے گا، اور جو تم نے کیا اس کی پرواہ نہ کرے گا، اور جاہل سے اس لئے جھگڑا نہ کرنا کیونکہ وہ تم پر غضبناک ہو کر تمہاری اطاعت چھوڑ دے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 309]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 310] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 82/4] ، [الإكمال 254/2] ، [الانساب 188/3] ، اور اس کا شاہد بھی [زهد ابن المبارك 50] ، اور [ترمذي 2406، 2407] میں موجود ہے۔
یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ سلیمان بن داؤد علیہم السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا: جھگڑا کرنا چھوڑ دو کیونکہ اس سے فائدہ کم ہے، اور یہ بھائیوں کے درمیان عداوت کو ہوا دیتا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 310]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 311] » اس روایت کی سند ضعیف ہے اور «انفرد به الدارمي» ۔
اسماعیل بن ابی حکیم نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو سنا، وہ فرماتے تھے: جس نے اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنایا (اس کا) تنقل زیادہ ہو گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 311]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 312] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 273/5] ، [إبانة 566-569] ، [أصول اعتقاد أهل السنة 216] ، [الشريعة ص: 62] ، [الفقيه 235/1] ، [جامع بيان العلم 1770]
وضاحت: (تشریح احادیث 301 سے 311) تنقل کا معنی ایک جگہ سے دوسری جگ منتقل ہونا یا ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف منتقل ہونا ہے، یعنی بار بار اپنی رائے یا قول بدلنا ہے۔ «كما قاله الدارمي» ۔
عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کو لکھا کہ جو شخص بنا علم عبادت کرے (یا عبادت کے لئے علاحدگی اختیار کرے) وہ اصلاح سے زیادہ بگاڑ پھیلائے گا، اور جو اپنے کلام کا عمل سے موازنہ کرے تو اس کا کلام بقدر ضرورت ہو جائے گا، اور جو اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنائے اس کا تنقل زیادہ ہو جائے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 312]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع سعيد بن عبد العزيز لم يدرك عمر بن عبد العزيز فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 313] » اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 132] ، [الفقيه 19/1] ، [الزهد لأحمد 302] خطیب کا شاہد صحیح ہے اس لئے اس روایت کا معنی صحیح ہے۔
جعفر بن برقان سے مروی ہے عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ سے کسی شخص نے خواہشات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: اعرابی اور غلام کے دین کو لازم پکڑو، اور جو اس کے ماسوا ہے اسے بھول جاؤ۔ امام دارمی نے کہا: «كثر تنقله» سے مراد: ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف منتقل ہونا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 313]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع جعفر بن برقان لم يدرك عمر بن عبد العزيز، [مكتبه الشامله نمبر: 314] » اس روایت کی سند منقطع ہے، اور صرف لالکائی نے [شرح أصول أهل السنة 250] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 311 سے 313) ان تمام روایات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ عالمِ دین کو باعمل، متواضع، مخلص اور باوقار ہونا چاہئے، غرور، گھمنڈ، ہٹ دھرمی، خودغرضی، فضول قسم کی قیل و قال سے اسے دور رہنا چاہئے۔