انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال و حرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض (میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ۲- اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3790]
وضاحت: ۱؎: امین یوں تو سارے صحابہ تھے، مگر ابوعبیدہ رضی الله عنہ اس بات میں ممتاز تھے، اس لیے ان کو «امين الامة»(آج کل کی اصطلاح میں پوری امت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا، اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس صفت میں ممتاز قرار دیا، جیسے حیاء میں عثمان، قضاء میں علی، میراث میں زید بن ثابت اور قراءت میں ابی بن کعب، وغیرہم رضی الله عنہم، (دیکھیے اگلی حدیث)۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض (میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3791]
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں «لم يكن الذين كفروا»۱؎ پڑھ کر سناؤں، انہوں نے عرض کیا: کیا اس نے میرا نام لیا ہے، آپ نے فرمایا: ”ہاں (یہ سن کر) وہ رو پڑے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3792]
وضاحت: ۱؎: سورۃ البینۃ: ۱۔ ۲؎: یہ بات اللہ کے نزدیک ابی بن کعب کے مقام و مرتبہ کی دلیل ہے، اور وہ بھی خاص قراءت قرآن میں «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء»(الجمعة: ۴)
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں“، پھر آپ نے انہیں «لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب» پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ۱؎ «إن ذات الدين عند الله الحنيفية المسلمة لا اليهودية ولا النصرانية من يعمل خيرا فلن يكفره»”بیشک دین والی ۲؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہو جانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جو کوئی نیکی کا کام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے“، اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ۳؎ «ولو أن لابن آدم واديا من مال لابتغى إليه ثانيا ولو كان له ثانيا لابتغى إليه ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب»”اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ۴؎، اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا: ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں“، ۴- قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا کہ ”اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3793]
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۲؎: یعنی: شادی کے لیے عورتوں کا انتخاب میں جو «فاظفر بذات الدین» کا حکم نبوی آیا ہے اس «ذات الدین» سے مراد ایسی ہی عورت ہے۔ ۳؎: یعنی: یہ حدیث ارشاد فرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔ ۴؎: یعنی: موت کے بعد مٹی میں دفن ہو جانے پر ہی یہ خواہش ختم ہو پائے گی۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے ہیں: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3794]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے لوگ ہیں ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح“(رضی الله عنہم)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3795]
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک قوم کا نائب اور سردار دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دونوں نے عرض کیا: ہمارے ساتھ آپ اپنا کوئی امین روانہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے ساتھ ایک ایسا امین بھیجوں گا جو حق امانت بخوبی ادا کرے گا“، تو اس کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اور پھر آپ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو روانہ فرمایا۔ راوی حدیث ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں: جب وہ اس حدیث کو صلہ سے روایت کرتے تو کہتے ساٹھ سال ہوئے یہ حدیث میں نے ان سے سنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی الله عنہما کے واسطے سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، آپ نے فرمایا: ”ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3796]
بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: مجھے مسلم بن قتیبہ اور ابوداؤد نے خبر دی اور ان دونوں نے شعبہ کے واسطہ سے ابواسحاق سے روایت کی، وہ کہتے ہیں: حذیفہ نے کہا: صلہ بن زفر کا دل سونے کی طرح روشن اور چمکدار ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3796M]