الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
33. باب مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَىٍّ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رضى الله عنهم
33. باب: معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہم کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3790
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ دَاوُدَ الْعَطَّارِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ بْنُ كَعْبٍ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَالْمَشْهُورُ حَدِيثُ أَبِي قِلَابَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال و حرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض (میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں
۲- اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3790]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ما بعدہ (تحفة الأشراف: 1344) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: امین یوں تو سارے صحابہ تھے، مگر ابوعبیدہ رضی الله عنہ اس بات میں ممتاز تھے، اس لیے ان کو «امين الامة» (آج کل کی اصطلاح میں پوری امت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا، اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس صفت میں ممتاز قرار دیا، جیسے حیاء میں عثمان، قضاء میں علی، میراث میں زید بن ثابت اور قراءت میں ابی بن کعب، وغیرہم رضی الله عنہم، (دیکھیے اگلی حدیث)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (154)

   جامع الترمذيأرحم أمتي بأمتي أبو بكر وأشدهم في أمر الله عمر وأصدقهم حياء عثمان وأقرؤهم لكتاب الله أبي بن كعب وأفرضهم زيد بن ثابت وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل لكل أمة أمينا وإن أمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
   جامع الترمذيأرحم أمتي بأمتي أبو بكر وأشدهم في أمر الله عمر وأصدقهم حياء عثمان وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل وأفرضهم زيد بن ثابت وأقرؤهم أبي بن كعب ولكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
   سنن ابن ماجهأرحم أمتي بأمتي أبو بكر وأشدهم في دين الله عمر وأصدقهم حياء عثمان وأقضاهم علي بن أبي طالب وأقرؤهم لكتاب الله أبي بن كعب وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل وأفرضهم زيد بن ثابت لكل أمة أمينا وأمين هذه الأمة أبوعبيدة بن الجراح
   بلوغ المرام أفرضكم زيد بن ثابت
   المعجم الصغير للطبراني أرحم أمتي بأمتي أبو بكر ، وأرفق أمتي لأمتي عمر بن الخطاب ، وأصدق أمتي حياء عثمان ، وأقضى أمتي على بن أبى طالب ، وأعلمها بالحلال والحرام معاذ بن جبل يجيء يوم القيامة أمام العلماء برتوة ، وأقرأ أمتي أبى بن كعب ، وأفرضها زيد بن ثابت ، وقد أوتي عويمر عبادة ، يعني أبا الدرداء رضي الله عنهم أجمعين

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3790 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3790  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
أمین یوں تو سارے صحابہ تھے،
مگر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس بات میں ممتاز تھے،
اس لیے ان کو (اَمِیْنُ الْاُمَّة) (آج کل کی اصطلاح میں پوری اُمّت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا،
اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپﷺ نے ان کواس صفت میں ممتا ز قرار دیا،
جیسے حیاء میں عثمان،
قضاء میں علی،
میراث میں زید بن ثابت اور قراء ت میں ابی بن کعب،
و غیرہم رضی اللہ عنہم،
(دیکھئے اگلی حدیث)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3790   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 817  
´فرائض (وراثت) کا بیان`
سیدنا ابوقلابہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے زیادہ میراث کو جاننے والا زید بن ثابت ہے۔ اس حدیث کو احمد اور چاروں نے ماسوا ابوداؤد کے روایت کیا ہے۔ ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے لیکن اسے مرسل ہونے کی بنا پر معلول قرار دیا گیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 817»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل، حديث:3790، 3791، وابن ماجه، المقدمة، حديث:154، والنسائي في الكبرٰي:5 /78، حديث:8287.»
تشریح:
یہ دراصل ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔
مکمل روایت یوں ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے امت پر سب سے زیادہ رحم دل اور شفیق انسان ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں ‘ دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر(رضی اللہ عنہ)‘ سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ)‘ سب سے بہتر فیصلے کرنے والے علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ)‘ کتاب اللہ کے سب سے اچھے قاری اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ)‘ حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) اور علم میراث کے سب سے زیادہ ماہر زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے میراث کے اختلافی مسائل میں عموماً حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی رائے قابل ترجیح قرار دی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ قلابہ میں قاف کے نیچے کسرہ اور لام مخفف ہے۔
ان کا نام عبداللہ بن زید بن عمرو یا عامر جرمی بصری ہے۔
جلیل القدر تابعی‘ ثقہ اور فاضل آدمی ہیں۔
ان کی اکثر روایات میں ارسال ہوتا ہے۔
کتب ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔
منصب قضا کو چھوڑ کر شام جاکر مقیم ہو گئے اور وہاں ۱۰۴ یا ۱۰۶ یا ۱۰۷ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 817