عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1708]
وضاحت: ۱؎: منع کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس سے جانوروں کو تکلیف اور تکان لاحق ہو گی، نیز اس کام سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں، بلکہ یہ عبث اور لایعنی کاموں میں سے ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف غاية المرام (383) ، ضعيف أبي داود (443)
قال الشيخ زبير على زئي: (1708) إسناده ضعيف / د 2562
مجاہد سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند میں راوی نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، ۲- کہا جاتا ہے، قطبہ کی (اگلی) حدیث سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، اس حدیث کو شریک نے بطریق «مجاهد عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں ابویحییٰ کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- اور ابومعاویہ نے اس کو بطریق «الأعمش عن مجاهد عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے، ابویحییٰ سے مراد ابویحییٰ قتات کوفی ہیں، کہا جاتا ہے ان کا نام زاذان ہے، ۴- اس باب میں طلحہ، جابر، ابوسعید اور عکراش بن ذؤیب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1709]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19280) (ضعیف) (ابو یحیی قتات ضعیف ہیں، نیز یہ روایت مرسل ہے)»
قال الشيخ زبير على زئي: (1709) إسناده ضعيف السند مرسل، وانظر الحديث السابق:1708
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1710]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس 29 (2116)، (تحفة الأشراف: 2816)، و مسند احمد (3/318، 378) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے، چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2185) ، صحيح أبي داود (2310)