وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حد سے بری کر دیا اور زانی پر حد جاری کی، راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہر بھی دلایا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی اسناد متصل نہیں ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: عبدالجبار بن وائل بن حجر کا سماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے اپنے والد کا زمانہ نہیں پایا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعد پیدا ہوئے، ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جس سے جبراً زنا کیا گیا ہو اس پر حد واجب نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1453]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الحدود 30 (2598) (ضعیف) (نہ تو ”حجاج بن ارطاة“ نے ”عبدالجبار“ سے سنا ہے، نہ ہی ”عبدالجبار“ نے اپنے باپ سے سنا ہے، یعنی سند میں دو جگہ انقطاع ہے، لیکن یہ مسئلہ اگلی حدیث سے ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: لیکن دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کے بدلے اس عورت کو کچھ دلایا بھی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3571)
قال الشيخ زبير على زئي: (1453) إسناده ضعيف /جه 2598 السند منقطع ، انظر ضعيف سنن أبى داود (724) وحجاج بن أرطاة ضعيف (تقدم:527)
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: ”تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے ۲؎“ اور آپ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا: ”اسے رجم کرو“، آپ نے یہ بھی فرمایا: ”اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1454]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 7 (4379)، (تحفة الأشراف: 1177)، و مسند احمد (6/399) (حسن) (اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا، دیکھئے: الصحیحہ رقم 900)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا، عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔
۲؎: کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔
۳؎: یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے، کیونکہ یہ بےقصور تھا۔
۴؎: چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن - دون قوله " ارجموه " والأرجح أنه لم يرجم -، المشكاة (3572) ، الصحيحة (900)