22. باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا اسْتُكْرِهَتْ عَلَى الزِّنَا
22. باب: زنا پر مجبور کی گئی عورت کے حکم کا بیان۔
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی
(یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک
(دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس
(دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا
(یعنی زنا) کیا ہے
۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا
(یعنی زنا) کیا ہے،
(یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا:
”تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے
۲؎“ اور آپ نے اس آدمی کو
(جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی
۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا:
”اسے رجم کرو
“، آپ نے یہ بھی فرمایا:
”اس
(زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔
[سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1454]