جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ۱؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مر گئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں ہی کا ہو گا۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اور رقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے، ان لوگوں نے عمریٰ کو تو معمر (جس کے نام چیز دی گئی تھی) کی موت کے بعد اس کے ورثاء کا حق بتایا ہے اور رقبیٰ کو کہا ہے کہ ورثاء کا حق نہیں ہو گا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1351]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 2705) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «رقبیٰ»، «رقب» سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہو گی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی، جیسے عمریٰ میں ہے۔ رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ ”یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی، اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی، پھر تم مر جاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔“ اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتا تھا۔