ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان وہی دے جو باوضو ہو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 200]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 14603) (ضعیف) (سند میں معاویہ بن یحیی صدفی ضعیف ہیں، نیز سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے)»
وضاحت: ۱؎: بہتر یہی ہے کہ اذان باوضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (222) // ضعيف الجامع الصغير (6317) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف قال البيهقي في السنن الكبرى (1/397) : ” هكذا رواه معاوية بن يحيى الصدفي وهو ضعیف “ وقال الهيثمي : وأحاديثه عن الزهري مستقيمة كما قال البخاري وهذا منها وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد:84/2) قلت : انظر الكامل لابن عدي (2395/6 والنسخة الأخرى 138/8 ، فيه الجنيدي وهو محمد بن عبدالله بن الجنيد : ذكره ابن حبان في الثقات 155،156/9) يعني فيما روى عنه هقل بن زياد ، انظر التاريخ الكبير للبخاري (336/7) والضعفاء الكبير للعقيلي (182،183/4) وفي قول البخاري نظر .
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: نماز کے لیے وہی اذان دے جو باوضو ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو ابن وہب نے مرفوع روایت نہیں کیا، یہ ۱؎ ولید بن مسلم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۳- زہری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے، ۴- بغیر وضو کے اذان دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے، اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 201]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: یعنی عبداللہ بن وہب کی موقوف روایت جسے انہوں نے بطریق «يونس عن الزهري، عن أبي هريرة موقوفاً» روایت کی ہے، پہلی روایت (جو مرفوع ہے) کے مقابلہ میں ارجح ہے اور اس کا ضعف کم ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (222)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ابن شهاب الزهري لم يسمح من أبي هريره رضي الله عنه كما قال المؤلف رحمه الله فالسند منقطع .