عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے، اور وہ اس قدر بوڑھے ہو گئے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ اس سے مر نہ جائیں، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ نے فرمایا: اگر ان پر کچھ قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کیا وہ کافی ہوتا؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنے باپ کی طرف سے حج کر لو“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5395]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 2635 (شاذ) (اس واقعہ میں سائل کا مرد ہونا شاذ ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ مضطرب والمحفوظ أن السائل امرأة والمسؤول عنه أبوها
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بڑی بوڑھی عورت ہیں، اگر میں انہیں سوار کر دوں تو وہ اسے پکڑ نہیں سکیں گی اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ میرے اس عمل سے مر نہ جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے یا نہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5396]
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کر سکتے، اگر میں انہیں سوار کر دوں، تو اسے پکڑ کر بیٹھ نہیں سکیں گے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سلیمان کا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5397]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟“۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5398]