ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اور قیامت دونوں اس طرح بھیجے گئے ہیں“، آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر بتایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4040]
وضاحت: ۱؎: یعنی امت محمدیہ کے بعد قیامت تک اور کوئی امت حقہ نہ ہو گی اور اسلام ہی کے خاتمہ پر دنیا کا بھی خاتمہ ہے، اس حدیث سے یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں فاصلہ نہیں ہے جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا اور اپنے خیال کی بناء پر یہ اعتراض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کئے ہوئے چودہ سو برس سے زیادہ گزرے لیکن ابھی تک قیامت نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی بڑی نشانی ظاہر ہوئی۔
حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اپنے کمرے سے جھانکا، ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں گی قیامت قائم نہ ہو گی، جن میں سے دجال، دھواں اور سورج کا پچھم سے نکلنا بھی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4041]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن 13 (2901)، سنن ابی داود/الملاحم 12 (4311)، سنن الترمذی/الفتن 21 (2183)، (تحفة الأشراف: 3297)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6، 7) (صحیح)» (یہ حدیث مکرر ہے، اور بہ تمام وکمال: 4055 نمبر پر آرہی ہے)
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں صرف تین ہی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، یہ حدیث مختصر ہے، پوری روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے جسے مولف دو باب کے بعد بیان کریں گے، اس میں دس نشانیاں مذکور ہیں۔
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عوف! اندر آ جاؤ“، میں نے عرض کیا: پورے طور سے، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں پورے طور سے“، پھر آپ نے فرمایا: ”عوف! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے“، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری ایک بیماری ہے جو تم میں ظاہر ہو گی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہارے اعمال کو پاک کرے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہو گی حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی راضی نہ ہو گا، پانچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ برپا ہو گا جس سے کوئی گھر باقی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو، چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہو گی، لیکن پھر وہ لوگ تم سے دغا کریں گے، اور تمہارے مقابلہ کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4042]
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کرو گے، اور اپنی تلواریں لے کر باہم لڑو گے، اور تمہارے بدترین لوگ تمہاری دنیا کے مالک بن جائیں گے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4043]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن 9 (2170)، (تحفة الأشراف: 3365)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/389) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری اور عبدالعزیز دراوردی میں کلام ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز لوگوں کے پاس باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے، تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے پاؤں، ننگے بدن لوگ لوگوں کے سردار بن جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریاں چرانے والے عالی شان عمارتوں پر فخر کرنے لگ جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں ہے، اور قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام»”اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کب ہو گی، وہی بارش نازل کرتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے“(سورة لقما ن: 34)۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4044]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان 38 (50)، صحیح مسلم/الإیمان 1 (9)، سنن النسائی/الإیمان 6 (4994)، (تحفة الأشراف: 14929)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/426) (صحیح)» (یہ حدیث نمبر (65) کا ایک ٹکڑا ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کا وقت معلوم ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کسی آدمی کو معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا، بس یہ باتیں غیب مطلق ہیں ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے، اور جو کوئی دعوے کرے کہ کسی نبی یا ولی کو علم غیب ہے وہ تو کافر ہے، قرآن کی بہت ساری آیتوں میں صاف صاف یہ مضمون ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہئے: میں غیب نہیں جانتا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث نہ بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اور میرے بعد تم سے وہ حدیث کوئی بیان کرنے والا نہیں ہو گا، میں نے اسے آپ ہی سے سنا ہے کہ ”قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہو جائے گا، شراب پی جانے لگے گی، مرد کم ہو جائیں گے، عورتیں زیادہ ہوں گی حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا «قيم»(سر پرست و کفیل) ایک مرد ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4045]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4046]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15098، ومصباح الزجاجة: 1426)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الفتن 24 (7119)، صحیح مسلم/الفتن 8 (2894)، سنن ابی داود/الملاحم 13 (4313)، سنن الترمذی/صفة الجنة 26 (2569)، مسند احمد (2/261، 332، 360) (حسن صحیح)» ( «من کل عشرة تسعة» کا لفظ ضعیف اور شاذ ہے، «من کل مئة تسعة وتسعون» کا لفظ محفوظ ہے)۔
وضاحت: ۱ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گا کہ شاید میں بچ رہوں اور سونے کے اس پہاڑ کو لوں اور لڑے گا، صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ جب یہ خزانہ نمودار ہو تو جو وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے، واضح رہے کہ اس خزانے کے حصول کے لیے بہت قتل و غارت ہو گی، ہر شخص یہی چاہے گا کہ یہ خزانہ اسی کو ملے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح دون قوله من كل عشرة تسعة فإنه شاذ والمحفوظ من كل مائة تسعة وتسعون م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف شاذ جاء في صحيح مسلم (2894 / 29)’’ فيقتل من كل مائة تسعة وتسعون ‘‘ وھو الصواب انوار الصحيفه، صفحه نمبر 521
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”قتل، قتل، قتل“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4047]