عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عوف! اندر آ جاؤ“، میں نے عرض کیا: پورے طور سے، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں پورے طور سے“، پھر آپ نے فرمایا: ”عوف! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے“، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری ایک بیماری ہے جو تم میں ظاہر ہو گی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہارے اعمال کو پاک کرے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہو گی حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی راضی نہ ہو گا، پانچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ برپا ہو گا جس سے کوئی گھر باقی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو، چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہو گی، لیکن پھر وہ لوگ تم سے دغا کریں گے، اور تمہارے مقابلہ کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4042]
اعدد ستا بين يدي الساعة موتي فتح بيت المقدس موتان يأخذ فيكم كقعاص الغنم استفاضة المال حتى يعطى الرجل مائة دينار فيظل ساخطا فتنة لا يبقى بيت من العرب إلا دخلته هدنة تكون بينكم وبين بني الأصفر فيغدرون فيأتونكم تحت ثمانين غاية تحت كل غاية اثنا عشر ألفا
احفظ خلالا ستا بين يدي الساعة إحداهن موتي قال فوجمت عندها وجمة شديدة فقال قل إحدى فتح بيت المقدس داء يظهر فيكم يستشهد الله به ذراريكم وأنفسكم ويزكي به أموالكم تكون الأموال فيكم حتى يعطى الرجل مائة دينار فيظل ساخطا فتنة تكون بينكم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4042
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔ اس لیے آپﷺ کی وفات قیامت کی نشانی ہے۔
(2) بیت المقدس پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فتح ہوا۔ دوبارہ صلاح الدین ایوبی ؒنےفتح کیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت بھی یہود سے جنگ ہوگی اور ان کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔
(3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وبا پھیلی تھی جو طاعون عمواس کے نام سے معروف ہے۔ بعد میں بھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ ممکن ہے کہ قیامت کے قریب کوئی اور وبا آنے والی ہو۔
(4) مال کی حرص اور ناشکری موجودہ دور میں عام ہے۔ جدید جاہلیت کی بعض تحریکیں مثلاً: بینکوں میں پیسے رکھ کر سود لینے کی ترغیب، بیمہ جو سود اور جوئے کا مجموعہ ہے بہت سی انعامی اسکیمیں جو لاٹری یعنی جوئے کی شکلیں ہیں اور زیادہ اخراجات سے ڈر کر کم بچے پیدا کرنے کی کوشش (خاندانی منصوبہ بندی) اسی مادہ پرست ذہنیت کے چند مظاہر ہیں۔
(5) ہر گھر میں داخل ہونے والے فتنے کا اطلاق متعدد چیزوں پر ممکن ہے۔ مثلاً: جاندار کی تصویر جو کہ شرعاً حرام ہے۔ بہت سے لوگ اپنے کسی بزرگ یا بچے کی یا کسی عالم یا پیر کی تصویر شوقیہ یا برکت کے لیے گھر میں رکھتے ہیں۔ اگر کوئی اس سے بچ جائے تو اخباروں اور رسالوں میں پھر بچوں کی نصابی کتابوں میں ضرور موجود ہوتی ہے۔ پاسپورت اور شناختی کارڈ وغیرہ میں حکومت کے احکام سے ہر گھر میں تصویر مجبوری بن چکی ہے اس کے بعد ٹیلی ویژن، وی سی آر کیبل اور انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے سے اس کے مضر اثرات مزید وسعت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی طرح کا فتنہ موسیقی ہے جو پہلے صرف فلمی گانوں کے ساتھ سنی جاتی تھی اور اس کو سننے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا پھر ریڈیو ٹی وی وغیرہ کے ذریعے سے عام ہوگئی۔ اب تقریباً ہر گھر، ہر دکان، بس، کاراور ٹیکسی میں موجود ہے بلکہ نعتوں اور شرکیہ نظموں کے ساتھ اس کی موجودگی نے عوام کی نظر میں اسے گناہ کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔ علاوہ ازیں وطن، قبیلہ، زبان، فرقہ، تنظیم اور پارٹی کی بنیاد پر تعصب بلکہ قتل وغارت بھی جدید دور کا ایک عظیم فتنہ ہے۔ مالی معاملات میں حکومتوں کے سود کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے کوئی شخص اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ اس طرح اور فتنے بھی ہوسکتے ہیں۔
(6) رومیوں سے مراد مغرب کے عیسائی ممالک ہوسکتے ہیں۔ یہ علامت ابھی ظاہر نہیں ہوئی ہے ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کا بہانہ بنا کر اسی غیر مسلم ممالک مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں۔ والله اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4042
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3176
3176. حضرت عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے چھ نشانیاں (ہوں گی انھیں) شمار کرلو: ایک تو میری وفات، دوسری فتح بیت المقدس، تیسری وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں کی بیماری قعاص پھیلتی ہے۔ چوتھی مال کی اس قدر فراوانی کہ اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں گی تو بھی خوش نہیں ہوگا۔ پانچویں ایک فتنہ جس سے عرب کاکوئی گھر نہیں بچے گا۔ چھٹی نشانی وہ صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہو گی۔ وہ بے وفائی کریں گے اور اسی جھنڈے لے کر تم سے لڑنے آئیں گے اور ہرجھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہوگی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3176]
حدیث حاشیہ: پہلی دوسری نشانی تو ہوچکی۔ تیسری کہتے ہیں وہ بھی ہوچکی ہے یعنی طاعون عمواس جو حضرت عمر ؓ کی خلافت میں آیا تھا۔ جس میں ہزاروں مسلمان مرگئے تھے۔ چوتھی نشانی بھی ہوچکی، مسلمان روم اور ایران کی فتح سے بے حد مالدار ہوگئے تھے۔ پانچویں نشانی کہتے ہیں ہوچکی جس سے بنوامیہ کا فتنہ مراد ہے۔ چھٹی نشانی قیامت کے قریب ہوگی۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دغابازی کرنا کافروں کا کام ہے اور یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے کہ وہ دغابازی عام ہوجائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3176
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3176
3176. حضرت عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے چھ نشانیاں (ہوں گی انھیں) شمار کرلو: ایک تو میری وفات، دوسری فتح بیت المقدس، تیسری وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں کی بیماری قعاص پھیلتی ہے۔ چوتھی مال کی اس قدر فراوانی کہ اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں گی تو بھی خوش نہیں ہوگا۔ پانچویں ایک فتنہ جس سے عرب کاکوئی گھر نہیں بچے گا۔ چھٹی نشانی وہ صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہو گی۔ وہ بے وفائی کریں گے اور اسی جھنڈے لے کر تم سے لڑنے آئیں گے اور ہرجھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہوگی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3176]
حدیث حاشیہ: 1۔ چھٹی علامت ابھی واقع نہیں ہوئی۔ اہل اسلام اور روم کے عیسائیوں کے درمیان جنگ بندی کی صلح ہو گی جس پر عملدرآمد نہیں ہوگا بلکہ عیسائیوں کی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج مسلمانوں پر حملہ آور ہوگی۔ اس وقت مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا۔ بالآخر حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دغا دینا کافروں کا کام ہے اور اس قسم کی بدعہدی قرب قیامت کے وقت ہوگی۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3176