الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
25. بَابُ : أَشْرَاطِ السَّاعَةِ
25. باب: قیامت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 4044
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ , عَنْ أَبِي حَيَّانَ , عَنْ أَبِي زُرْعَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ , فَأَتَاهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ , وَلَكِنْ سَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا , وَإِذَا كَانَتِ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ , فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا , وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ , فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا , فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ" , فَتَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ سورة لقمان آية 34.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز لوگوں کے پاس باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے، تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے پاؤں، ننگے بدن لوگ لوگوں کے سردار بن جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریاں چرانے والے عالی شان عمارتوں پر فخر کرنے لگ جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں ہے، اور قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام» اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کب ہو گی، وہی بارش نازل کرتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے (سورة لقما ن: 34) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4044]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان 38 (50)، صحیح مسلم/الإیمان 1 (9)، سنن النسائی/الإیمان 6 (4994)، (تحفة الأشراف: 14929)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/426) (صحیح)» ‏‏‏‏ (یہ حدیث نمبر (65) کا ایک ٹکڑا ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کا وقت معلوم ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کسی آدمی کو معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا، بس یہ باتیں غیب مطلق ہیں ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے، اور جو کوئی دعوے کرے کہ کسی نبی یا ولی کو علم غیب ہے وہ تو کافر ہے، قرآن کی بہت ساری آیتوں میں صاف صاف یہ مضمون ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہئے: میں غیب نہیں جانتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث قال ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك قال متى الساعة
   صحيح البخاريالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال الإحسان أن تعبد الله كأنك ترا
   صحيح مسلملا تشرك بالله شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان قال صدقت قال يا رسول الله ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر كله قال صدقت قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تخشى الله كأنك تراه فإنك
   صحيح مسلمتؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإنك إن
   سنن ابن ماجهمتى الساعة فقال ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن سأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربتها فذاك من أشراطها وإذا كانت الحفاة العراة رءوس الناس فذاك من أشراطها وإذا تطاول رعاء الغنم في البنيان فذاك من أشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله فتلا رسول الله إن الل
   سنن ابن ماجهما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤتى الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله
   مشكوة المصابيحوإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض في خمس لا يعلمهن إلا الله

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4044 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4044  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
یہ حدیث پوری تفصیل سے سنن ابن ماجہ کے مقدمہ کی احادیث میں گزر کی ہے۔ (دیکھیے: حدیث: 64)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4044   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 3  
´ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَرَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِيهِ: " وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ . . .»
. . . الفاظ کی کمی بیشی سے سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ جب ننگے پاؤں والوں اور ننگے بدن والوں اور بہرے گونگوں کو تم دیکھو گے کہ یہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں تو سمجھنا قیامت آنے ہی والی ہے۔ قیامت کا علم من جملہ ان پانچ باتوں کے ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے «إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ» آخر تک . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 3]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 50]،
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی پوری حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، وہ فرماتے ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھو، صحابہ نے سوال کرنے سے خوف محسوس کیا تو ایک آدمی آیا اور (آ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کے ساتھ کچھ (بھی) شرک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو (یہ اسلام ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے) کہ تم اس (اللہ) کے فرشتوں، کتابوں، ملاقات (آخرت) اور رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد (دوبارہ) زندگی کا یقین رکھو اور ساری تقدیر کو مانو (کہ خیر و شر اللہ ہی کی طرف سے ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ کہا:، اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے اس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے (یعنی یہ درجہ حاصل نہ ہو سکے تو کم از کم یہ یقین کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمہیں اس کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، گونگے، بہرے، چرواہے زمین کے بادشاہ بن رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت) ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (جس کا ترجمہ درج ذیل ہے) بےشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل کرتا ہے اور (تمام) ارحام میں کیا ہے وہی جانتا ہے۔ کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی جان دار کو یہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہو گا (اور چلا گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ، اسے تلاش کیا گیا (لیکن) وہ نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام ہیں، یہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ تمہیں (دین) سکھائیں، کیونکہ تم خود سوال نہیں کرنا چاہتے تھے۔
➋ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔
➌ ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے۔
➍ قرآن و حدیث میں قیامت کی جتنی نشانیاں مذکور ہیں، ان کے وقوع کے بعد ہی قیامت آئے گی۔
➎ تقدیر پر ایمان لانا فرض اور رکن ایمان ہے، جو لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، وہ اہل بدعت اور گمراہ ہیں۔
➏ حدیث قرآن کی شرح ہے۔ «وغير ذلك من الفوئد»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 3   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 50  
´دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: مَا الْإِيمَانُ؟ . . .»
. . . ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 50]
تشریح:
شارحین بخاری لکھتے ہیں: «مقصود البخاري من عقد ذلك الباب ان الدين والاسلام والايمان واحد لااختلاف فى مفهومهما والواو فى ومابين وقوله تعالي بمعني مع» یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور «وما بين» میں اور «وقوله تعاليٰ» میں ہر دو جگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں:
پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے «فجعل ذالك كله من الايمان» سے واضح فرما دیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔
دوسرا ترجمہ «وما بين لوفد عبدالقيس» ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔
تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ «ومن يبتغ غير الاسلام» ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبر ہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کو غیر ضروری بتلاتے ہیں۔

تعصب کا برا ہو:
فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگر تعصب کا برا ہو عصر حاضر کے بعض مترجمین و شارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انہوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں:
امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہو گئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زود رنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہو گیا۔ [انوارالباری، جلد: دوم، ص: 168]
اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگر آج کے دور میں ان فرسودہ مباحث میں جا کر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کر کے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا تو سب کے لیے یہ عقیدہ ہے «تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ» [2-البقرة:134] رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیر فقیہ قرار دینا خود ان لکھنے والوں کے زود رنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 50   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4777  
4777. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر یقین رکھو۔ پھر وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے تم سوال کر رہے ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4777]
حدیث حاشیہ:
ایمان اور اسلام تو سب مومنین کو شامل ہے اور احسان ولایت کا درجہ ہے پھر احسان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کے تمام خیالات کو دور کر کے اللہ کی یاد میں ایسا غرق ہوجائے جیسے اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔
ہر وقت یہ سمجھ کر گناہ اور بری باتوں سے بچا رہے۔
جب یہ حاصل ہو جائے تو وہ آدمی یقینا ولی اللہ ہے۔
اب یہ ضروری نہیں کہ اسے کشف و کرامت حاصل ہو کشف و کرامت کا ذکر کرنا نادانی ہے۔
أَن تَلِدَ الأَمَةُ رَبتھَا کا مطلب یہ کہ لونڈیوں کی اولاد بہت پیدا ہوتو ماں لونڈی اوربیٹا گویا اس کا مالک ہوا۔
آخر حدیث میں زمانہ حاضرہ پر اشارہ ہے کہ جنگلوں کے رہنے والے بکریاں اونٹ چرانے والے لوگ شہروں کا رخ کرینگے اور بڑے بڑے عہدے پا کر بڑے بڑے مکانات بنائیں گے اور وہ آج کل ہورہا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4777   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 50  
50. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور روز حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔ اس نے مزید سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم محض اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ نماز ٹھیک طور پر ادا کرو اور فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: قیامت کب برپا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی سوال کرنے والے سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:50]
حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں:
"مقصود البخاري من عقد ذلك الباب أن الدین و الإسلام و الإیمان واحد لا إختلاف في مفهومهما والواو في و مابین وقوله تعالى بمعنی مع." یعنی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اور ومابین میں اور وقولہ تعالیٰ میں ہردوجگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے فجعل ذالك کله من الإیمان سے واضح فرما دیا۔
یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔
دوسرا ترجمہ وما بین لوفد عبدالقیس ہے یعنی آپ ﷺ نے وفدعبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرما کر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔
تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ ﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ﴾ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔
اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبرہے۔
یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔
حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کوغیرضروری بتلاتے ہیں۔
تعصب کا برا ہو:
فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔
مگرتعصب کا براہو عصرحاضر کے بعض مترجمین وشارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انھوں نے یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہوگئے۔
جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔
دوسرے وہ زود رنج تھے۔
فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔
اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔
جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہوگیا۔
(انوارالباری، جلد:
دوم، ص: 168)

اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔
مگرآج کے دورمیں ان فرسودہ مباحث میں جا کر علمائے سلف کا باہمی حسد وبغض ثابت کرکے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا توسب کے لیے یہ عقیدہ ہے:
﴿تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ﴾ (البقرة: 134)
رحمہم اللہ اجمعین۔
آمین۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیرفقیہ قراردینا خود ان لکھنے والوں کے زودرنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 50   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث64  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ۱؎۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو۔‏‏‏‏ اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 64]
اردو حاشہ:
(1)
مستقبل کا صحیح علم صرف اللہ کو ہے۔
آیت مبارکہ میں مذکور تمام امور کا تعلق مستقبل سے ہے۔
قیامت کے متعلق جو علامات بیان کی گئی ہیں ان کے ظہور کا متعین وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چہ جائیکہ قیامت کے وقت کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے، اسی طرح دوسرے امور بھی ہیں جن کے متعلق انسان اندازے لگاتا رہتا ہے جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، مثلا:
بادل دیکھ کر ہم بارش کی امید کر سکتے ہیں لیکن سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بادل برسے گا یا بغیر برسے ہی آگے گزر جائے گا۔
اسی طرح آثاروعلامات کی روشنی میں بچے کی امید کر سکتے ہیں لیکن ان کا مذکر یا مونث ہونا، ذہین یا کم عقل ہونا، کسی جسمانی یا ذہنی معذوری میں مبتلا ہونا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص مکمل وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ہم مستقبل کے پروگرام تو بنا سکتے ہیں لیکن ناگہانی رکاوٹوں اور اچانک پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت واقف نہیں ہو سکتے، اس طرح کسی کی زندگی اور موت کے بارے میں صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
انسان صرف اندازہ کر سکتا ہے لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اندازہ بالکل صحیح ہو گا۔

(2)
اگر عالم کو کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہہ دے مجھے معلوم نہیں اور اسے اپنی عزت و شان کے منافی نہ سمجھے۔

(3)
عالم کو چاہیے کہ سوال کرنے والے کو نرمی اور محبت سے سمجھائے، ناراضی کا اظہار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 97  
ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے تو ایک آدمی نے آکر آپ ﷺ سے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں کو مان لو اور دوبارہ اٹھنے کا یقین کر لو۔ اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:97]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الإيمان:
آمن سے ماخوذ ہے اور امن خوف کی ضد ہے،
اس لیے اس کا معنی ہے خوف کا نہ ہونا۔
طمانیت و تسکین اور انسان جس سے بے خوف ہوتا ہے،
اس پر اعتماد اور بھروسہ کرتا ہے اور اس سے بیقرار اور پریشان نہیں ہوتا،
اس لیے ایمان کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
(2)
آمَنهُمْ ان کو بے خوف کر دیا۔
(3)
آمَنَ بِهِ اس کا اعتراف کیا،
اس کو مان لیا۔
(4)
آمَنَ لَه:
اس کی تصدیق کی۔
(5)
آمن عليه:
اس پر اعتماد و بھروسہ کیا۔
اس لیے ایمان کا معنی ہو گا رسول پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی بات کی تصدیق کر کے اس کو مخالفت سے بے خوف کر دینا۔
اسلام:
کا معنی ہے،
اپنے آپ کو کسی کے سپرد کر دینا۔
اور اس کے تابع فرمان ہو جانا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے پیش کردہ،
ضابطہ حیات کا نام اسلام ہے،
کیونکہ اس کی رو سے انسان اپنے آپ کو بالکل اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں اپنی رضا سے دستبردار ہو کر،
مکمل طور پر اس کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔
احسان:
حسن سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی ہے خوبی و کمال،
استحکام و پختگی،
کام اس طرح کرنا جس طرح کے اس کے کرنے کا حق ہے۔
لقاء:
مصدر ہے جس کا معنی ملاقات ہے،
لیکن یہاں مراد،
حساب و کتاب کے لیے،
اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہے۔
بعث آخر:
اس سے مراد،
جزا و سزا کے لیے دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
اشراط:
شرط شین اور راء کے فتحہ کے ساتھ،
کی جمع ہے جس کا معنی علامت و نشانی ہے یا مقدمات (کسی چیز کے ابتدائی معاملات)
۔
بَهْمٌ:
بَهْمَةٌ کی جمع ہے اور بَهْمٌ بھیڑ بکری کے بچہ کو کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
1)
ارکان اسلام:
میں سے پہلا رکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے،
یہ رکن اساس اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،
جس پر باقی ارکان کی قبولیت اور ان کے قیام وبقا کا انحصار ہے،
عبادت کے اصل معنی ہیں کسی کے لیے رام ہونا،
اس کے سامنے بچھ جانا اور اس کے حضور انتہائی عاجزی وفروتنی اور بے بسی وانکساری کا اظہار کرنا،
چنانچہ اس کے لیے اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔
شریعت کی رو سے عبادت:
اس عجز ونیاز اور اطاعت وبندگی کو کہتے ہیں جو کسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر اس کی رضا وخوشنودی کے حصول کےلیے کی جائے۔
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،
پہلے جملہ کی تاکید اور توضیح وبیان کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی وعبادت کا حق اسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے،
جب اس حق میں کسی اور کو دخیل یا شریک نہ کیا جائے۔
2)
لونڈی اپنے مالک اور آقا کوجنے گی:
کا مفہوم یہ ہے کہ بیٹے ماں پر حکمرانی کریں گے،
اس کی خدمت وطاعت کی بجائے اس پر رعب جمائیں گے اور اس کو اپنا تابع فرمان سمجھیں گے۔
3)
ننگے بدن،
ننگے پاؤں،
لوگوں کے سردار ہوں گے:
یعنی نچلے طبقہ کے لوگ اور بے حیثیت اور نا اہل افراد حکمران بنیں گے،
با صلاحیت اور صاحب استعداد لوگ نظر انداز کر دیئے جائیں گے۔
عہدہ اقتدار واختیار کے حصول کا ذریعہ صرف مال ودولت ہوگا،
امانت ودیانت اور علم وفضل کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔
4)
پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے:
یہاں اللہ تعالیٰ کے علم کو پانچ اشیاء کے ساتھ مختص کیا گیا ہے،
حالانکہ اس کا علم غیر متناہی ہے اور ہر چیز کا علم صرف اسے ہی ہے،
اس تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ آپ سے سوال صرف انھی پانچ چیزوں کے بارے میں ہوا تھا یا اس لیے کہ یہ پانچ اشیاء بنیادی اور مرکز ومرجع کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی اشیاء انہیں کے تحت مندرج ہیں اور اس علم سے مراد کلی اور مجموع علم ہے،
جو اصول اور کلیات پر مشتمل ہے،
بعض افراد یا جزئیات کا علم کسی کو حاصل ہو جائے تو وہ اس کے منافی نہیں۔
نیز اس سے مراد غیبی علم ہے جو حواس،
ہدایت عقل،
علامات وامارات،
اسباب ووسائل اور تجربات واستدلال کے بغیر حاصل ہوتا ہے اگر ان اشیاء خمسہ میں سے کسی جزئی یا جزئیات کا علم،
کسی سبب،
واسطہ وذریعہ یا آلات ووسائل سے حاصل ہوجائے یا ظن وتخمین سے بتا دیا جائے تو وہ اس کے منافی نہیں۔
قیامت کے وقوع کا وقت اور ان کی تعیین کے ساتھ یقینی وقطعی علم مخلوقات میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں،
وہ فرشتہ ہو یا رسول،
ولی جن ہو یا عام انسان۔
بارش کس وقت ہوگی،
کتنی ہوگی،
کہاں کہاں ہوگی،
کب تک رہے گی،
اس کے اثرات ونتائج کیا نکلیں گے،
اس کا قطعی ویقینی علم بھی اللہ تعالیٰ کو ہے،
تجربہ ومشاہدہ یا اسباب ووسائل اور آلات سے صرف اندازہ اور تخمینہ لگایا جاسکتا ہے،
ماں کے پیٹ میں کیا ہے،
اس کی رنگت،
ڈیل ڈول،
قد کاٹھ،
عمر،
صحت،
رزق،
احوال کیا ہوں گے،
تمام ارحام کے بیک وقت بلا کسی آلہ وذریعہ،
بلا سبب ووسیلہ اور بغیر تجربہ ومشاہدہ کے احتیاج کے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،
تجربہ ومشاہدہ اور آلات کے ذریعہ کسی مخصوص مال کے بارے میں محدود اور ناقص معلومات کا حاصل ہونا،
اس کے خلاف نہیں،
آئندہ کل کے بارے میں کامل معلومات،
پورے حالات وواقعات،
تمام مشاغل اور مصروفیات کا کلی علم،
جو ہر انسان پر حاوی ہے،
صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے،
شخصی اور انفرادی طور پر اور محدود پیمانہ پر بعض پروگرام ترتیب دینا اور اس کے مطابق پروگرام سر انجام دے لینا بھی اس کے منافی نہیں،
یہ الگ بات ہے پروگرام کی ہر جزئی کو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا ایک مشکل معاملہ ہے اسی طرح ہر انسان کی موت،
کب،
کہاں،
کیسے اور کن حالات میں واقع ہوگی،
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی فرد بشر یا فرشتہ وجن نہیں جانتا۔
ایک اشکال اور اس کا حل:
بعض شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ ان علوم خمسہ میں سے حظ وافر اللہ تعالیٰ نے انبیا ء علیہم السلام کو عمومًا اور رسول اکرم ﷺ کو خصوصًا عنایت فرمایا ہے،
اس کے لیے بعض علمائے اسلام کی عبارات بھی پیش کی ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح احادیث کی موجودگی میں جب کہ قرآن مجید کی صریح آیت بھی ان احادیث کی تصدیق اور تائید کرتی ہے،
علماء اسلام کا بلا دلیل،
قول حجت نہیں اور وہ قول بھی یقینی نہیں۔
علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
(ولیس عندي مایفید الجزم بذلك)
لیکن مجھے اس پر کوئی قطعی دلیل نہیں ملی۔
(روح المعانی تفسیر سورۃ لقمان)
۔

اور ان پانچ اشیاء کا علم ذاتی طور پر یا غیبی طور پر کلی اور مجموعی حیثیت سے صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اگر ان میں سے بعض کا علم،
جزئیات اور افراد کے اعتبار سے جزئیات کم ہوں یا زیادہ کسی کوکسی ذریعہ اور واسطہ سے حاصل ہوجائے،
تو وہ اس کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کسی فرد بشر یا ملکی کو عالم الغیب قرار دیا جا سکتا ہے،
اطلاع علی الغیب کو غیب قرار دینا فریب نفس ہے۔
اور اس اطلاع کےلیے بھی دلیل وحجت اور برہان کی ضرورت ہے،
محض احتمال پیدا کرنا دلیل نہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کو غیب کی بعض باتین بتا دینے سے رسول اللہﷺ کو عالم الغیب قرار دیاجائے تو پھر رسول اللہ ﷺ نے امت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہونے والی غیب کی جو باتیں بتائی ہیں ان کی وجہ سے امت بھی عالم الغیب ہونی چاہیے،
حالانکہ یہ بات کوئی نہیں کہتا۔
یہ علوم غیب یا علوم خمسہ ہی مفاتیح الغیب ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں،
اس لیے اگر کسی کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کسی کا علم،
کسی کو دیا گیا ہے تو اس کی قطعی اور یقینی دلیل پیش کرنی ہوگی،
محض امکان یا احتمال دلیل نہیں۔
اما م قرطبیؒ نے تصریح کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مفاتیح الغیب کی تفسیر ان علوم خمسہ سے کی ہے۔
(فتح الباری)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 97   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 99  
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے پوچھ لو! صحابہؓ نے آپ (ﷺ) سے سوال کرنے میں ہیبت محسوس کی (آپ کی عظمت کی بناء پر سوال نہ کیا) تو ایک آدمی آیا اور آپ (ﷺ) کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! اسلام کیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا! پوچھا اے اللہ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:99]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصم:
اصم کی جمع ہے،
بہرے (کان رکھنے کے باوجود حق قبول نہ کرنا،
گویا قوت سماع سے محروم ہونا)
(2)
البكم:
ابكم کی جمع ہے،
گونگے (زبان رکھنے کے باوجود حق کا اظہار نہ کرنا،
زبان سے محروم ہونا ہے)
(3)
ملوك:
ملك کی جمع ہے،
بادشاہ،
صاحب اقتدار۔
(4)
غيب:
جو چیز حواس اور بداہت عقلی سے معلوم نہ ہو سکے اور اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہ ہو۔
فوائد ومسائل:

حدیث میں دین کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں،
اسلام،
ایمان اور احسان ہر بعد والا درجہ پہلے سے بلند اور اس پر مشتمل ہے،
ایمان کے اندر اسلام داخل ہے اور احسان،
اسلام اور ایمان دونوں پر مشتمل ہے اور آخری بلند ترین رتبہ ہے۔

اسلام:
جس طرح پورے دین کا نام ہے ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا﴾ جو اسلام کے سوا کسی دین کا متلاشی ہوگا،
اسی طرح دین کے عملی پیکر جو محسوس ہو کا نام بھی ہے،
جو پانچ ارکان سے تشکیل پاتا ہے۔

ایمان:
دین کا دوسرا مرتبہ ہے جو دین اسلام کے چھ بنیادی ارکان پر مشتمل ہے اور اسلام کے عملی اور محسوس ہونے والے پانچ ارکان کے لیے قوت محرکہ کا کام دیتا ہے،
اس لیے اس پر مشتمل اور برتر درجہ ہے۔

احسان:
دین کا آخری اور تیسرا مرتبہ ہے،
جو پہلے دونوں درجوں پر مشتمل اور ان سے بلند ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ ہر قول وفعل اور عقیدہ وعمل کے پس منظر میں یہ جذبہ اور داعیہ موجود ہو کہ گویا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا دیکھنا تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی مسلمان منکر نہیں،
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اس حقیقت کے تصور کے ساتھ اس تصور کو بھی قائم کرے کہ میں بھی اسے دیکھ رہا ہوں،
لیکن آج ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس حقیقت مسلمہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اس کا تصور بھی مفقود ہے۔
اس لیے کم از کم ہمیں ہر عقیدہ وعمل کے ساتھ،
اس حقیقت کا استحضار (تصور وخیال میں)
کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے کیونکہ اجر وثواب یا جزا وسزا میں تو اس کے دیکھنے کا اعتبار ہے۔
5 - جس طرح انسان کو اپنی موت کے وقت دن اورجگہ کا علم نہیں اسی طرح پورے عالم یا کائنات کے فنا اور خاتمہ کا بھی کسی کو علم نہیں،
ہاں قیامت سے پہلے اس کے قرب اوروقوع کی علامات اور نشانیوں کا آہستہ آہستہ،
بتدریج ظہور شروع ہوجائے گا،
اور اس حدیث میں،
ان میں سے صرف تین نشانیوں کو بیان فرمایا گیا ہے:
(1)
ننگے بدن،
ننگے پاؤں،
بکریوں کے چرواہے جو علم وفضل سے محروم جاہل اور ناداں ہوتے ہیں،
وہ لوگوں کے سردار وقائد اور دولت وثروت کے مالک ہوں گے،
جن کا کام عمارات بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھنا اور اس پر فخر ومباہات کرنا ہوگا۔
(2)
جب فقیر وقلاش لو گ جو بہرے گونگے ہوں گے یعنی صلاحیت واہلیت اور استعداد وقابلیت سے محروم ہوں گے،
امانت ودیانت اور علم وفضل سے تہی دامن ہوں گے وہ بادشاہ ہوں گے،
انہیں اپنے حقوق و فرائض کا علم نہ ہوگا۔
انہیں تو صرف مال ودولت سمیٹنے اور محلات بنانے کی فکر ہوگی،
اس سے دین ودنیا کا نظم ونسق تباہ و برباد ہوگا۔
(3)
علم اور دیانت سے محرومی کی بنا پر بیٹیاں،
ماؤں کی نافرمان ہوں گی بلکہ مالکہ کی طرح ان پر حکم چلائیں گی۔
6 - ماالمسئول عنھا اعلم من السائل:
آپ نے یہ نہیں فرمایا،
میں اسے تجھ سے زیادہ نہیں جانتا بلکہ یہ فرمایا:
مسئول عنہ،
سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔
اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس مسئلہ میں میری اور تیری تخصیص نہیں بلکہ ہر سائل اور مسئول اس کے جواب میں برابر ہیں،
کسی شخص کو بھی اس کا علم نہیں دیا گیا۔
7 - راوی جب استاد سے اکیلا روایت سنے تو حدثنی کہتا ہے اور جب دوسرے ساتھیوں کے ساتھ سماع کرے تو حدثنا اسی طرح جب اکیلا،
استاد کو روایت سنائے تو اخبرنی اورجب ساتھیوں کے ساتھ قراءت کرے تو اخبرنا استعمال کرتا ہے۔
امام صاحب کی بھی صورت حال یہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 99   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:50  
50. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور روز حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔ اس نے مزید سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم محض اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ نماز ٹھیک طور پر ادا کرو اور فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: قیامت کب برپا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی سوال کرنے والے سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:50]
حدیث حاشیہ:

کسی چیز کی حقیقت وماہیت معلوم کرنا ہو تو ما کے ذریعے سے سوال کیا جاتا ہے، حدیث میں حقیقت ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسی چیزوں کی تصدیق کے متعلق جن کا تعلق مغیبات سے ہے اور انھیں اصول ایمان کہا جاتا ہے بیان فرمایا۔
اس حدیث میں پانچ چیزیں بیان ہوئی ہیں۔
اللہ پرایمان۔
قیامت پر ایمان۔
فرشتوں پر ایمان۔
رسولوں پر ایمان۔
تقدیر پر ایمان۔
بعض روایات میں چھٹی چیز کتابوں پر ایمان کا بھی ذکر ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93) (8)
۔
)

ان تمام اصول ایمان پر مکمل بحث ہم نے اپنی تالیف "مسئلہ ایمان وکفر" میں کی ہے۔

ارکان اسلام پانچ ہیں۔
(الف)
۔
ادائے شہادتین(توحید ورسالت کی گواہی)
۔
(ب)
۔
اقامت صلاۃ۔
(ج)
۔
ایتائے زکاۃ۔
(د)
۔
صوم رمضان۔
(س)
۔
حج بیت اللہ۔
اس روایت میں اگرچہ حج کا ذکر نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث(93) (8)
۔
)

یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں حاضر ہوئےتھے۔
(کتاب الإیمان، لإبن مندہ: 144/1(طبع دارالفضیلة)
و فتح الباري: 159/1۔
)


احسان کے معنی، عمل میں نکھار اور خوبصورتی ہیں۔
عمل میں نکھار اس وقت آتا ہے جب وہ ظاہر وباطن میں پوری طرح درست ہو۔
ظاہر میں عمل کے تمام آداب وشرائط داخل ہیں جبکہ باطن میں اخلاص نیت اور خشوع وخضوع شامل ہے۔
احسان کی تعریف میں اخلاص کے دو درجے بیان ہوئے ہیں۔
(الف)
مشاہدہ:
یہ اخلاص کااعلیٰ درجہ ہے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت بایں طور کی جائے گویا باری تعالیٰ نگاہوں کے سامنے ہے یعنی قلب ونظر اس طرف لگ جائیں۔
(ب)
۔
مراقبہ۔
عبادت گزار عبادت کرتے وقت یہ خیال کرے کہ اگر میں اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تواللہ تعالیٰ مجھے ہر آن دیکھ رہا ہے، جس عابد کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتا ہے۔
(فتح الباري: 159/1۔
)


بعض غالی قسم کے صوفیاء نے اپنے مذاق کے مطابق اس مقام پر ایک عجیب تاویل کی ہے کہ:
﴿فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ﴾ میں (كَانَ)
تامہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اگرتم اپنی ہستی فنا کرو اور(لَمْ تَكُنْ)
بن جاؤ تو اللہ کو دیکھ سکتے ہو۔
یہ تاویل عقل ونقل کے لحاظ سے باطل بلکہ قواعد عربی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔
کیونکہ اس صورت میں تَرَاهُ کا الف جواب شرط ہونے کی بنا پر حذف ہونا چاہیے تھا جبکہ حدیث کے تما م طرق میں الف موجود ہے، پھر حدیث میں صراحت ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔
(صحیح مسلم، الفتن حدیث: 7356(2931)
۔
)

اس سے معلوم ہوا کہ صوفیاء کے ہاں مقام مَحو وفنا خود ساختہ ہے۔
(فتح الباري: 160/1۔
)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ قراردیا ہے۔
ان کے نزدیک دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نہیں دیکھ رہے ہو تو پھر بھی احسان پر قائم رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔
گویا دوسرا جملہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی دارومدار تمہارے دیکھنے پر نہیں بلکہ اللہ کے دیکھنے پر ہے۔
وہ تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو، لہذا عبادت کو ہمیشہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔
(شرح نووي)

لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی شارحین نے اس کے کئی ایک مطالب بیان کیے ہیں۔
(الف)
۔
والدین کی نافرمانی عام ہوجائے گی۔
اولاد والدین کو ذلیل و خوار کرکے، ان سے اس طرح کام لے گی جس طرح خاوند اپنی بیوی سے لیتا ہے بالخصوص بیٹی جو ماں سے بہت محبت کرتی ہے وہ بھی نافرمانی پر اتر آئے گی۔
آج اس کا اکثر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
(ب)
۔
باندیوں کے بچے برسراقتدار آجائیں گے جن کے اخلاق وعادات اوراطوار فطری طورپر خراب ہوتے ہیں، یعنی اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوجائیں گے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے بلکہ نالائق، درشت مزاج اور انصاف کے تقاضوں سے ناآشنا ہوں گے۔
(ج)
۔
فتوحات زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں لونڈیاں زیادہ آئیں گی اور وہ ام ولد بنیں گی گویا اپنے آقا کو جنم دینا ہے۔
اس تفسیر پر یہ علامت بالکل ابتدائی نشانی ہوئی کیونکہ فتوحات کی کثرت تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوچکی ہے۔
(د)
۔
قرب قیامت کے وقت جہالت عام ہوگی جس کی بناپر ہر طرف بے عملی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہوگا، معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا کہ ام ولد جس کی خرید وفروخت ناجائز ہے، کھلے عام فروخت ہوگی اور وہ فروخت ہوتے ہوتے ایسے آقا کے پاس پہنچ جائے گی جس کو اس نے جنم دیا ہوگا اور وہ لاشعوری طور پر اس کا مالک بن جائے گا۔
(فتح الباري: 162/1۔
)


اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب سیاہ فام سیاہ اونٹوں کے چرواہے عمارتوں پر فخر کرنے لگیں یا دست درازی کریں تو اس وقت قیامت قریب آ لگے گی۔
اونٹوں کے چرواہے کہنے کی وجہ یہ ہےکہ اونٹوں کے پاس رہنے سے انسان میں سنگدلی اور بدمزاجی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ وہ درشت خو اور کینہ پرور لوگ ہوں گے انھیں تہذیب وتمدن اور باہمی رواداری سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، ایسےلوگ جب عمارتوں پر فخرکریں یا شہر کی عمارتوں پر دست درازی کریں یعنی انھیں مسمار کرکے نئی عمارتیں کھڑی کریں تو سمجھ لینا کہ اس عالم کی بساط الٹ دی جانے والی ہے۔

صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے قریب حکومتی معاملات غیر مہذب، گنوار اور نالائق لوگوں کے سپرد ہوجائیں گے۔
(صحیح البخاري، کتاب التفسیر، حدیث 4777۔
)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عنان اقتدار نالائق اور رذیل لوگ سنبھالیں گے جن میں علمی،عملی، اخلاقی اور سیاسی شعور نہ ہوگا توقیامت کے آنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 59۔
)

اس علامت کا تو آج مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ آج کل اقتدار پر کس قسم کے لوگ قابض ہیں۔
(فتح الباري: 164/1۔
)


پانچ چیزوں کے متعلق اللہ کے سوا اورکوئی نہیں جانتا، یعنی قیامت کا آنا، بارش کا آنا، رحم مادر میں کیا ہے کل کیا ہوگا اور کہاں موت آئے گی؟ انھیں مفاتیح الغیب قراردیا گیا ہے، یعنی علم غیب تو درکنار علم غیب کی کنجیاں بھی کسی کو معلوم نہیں جن کے ذریعے سے علوم تک پہنچا جاسکے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ کس قدر ضلالت اور گمراہی میں ہیں۔
ہاں بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی خبر دے دیں تو یہ نبی کا منصب ہے۔
اسے غیب کا علم جاننا نہیں کہا جا سکتا۔
10۔
آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ایمان، اسلام، احسان اور علامات قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کا نام ایمان کامل ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 50   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4777  
4777. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر یقین رکھو۔ پھر وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے تم سوال کر رہے ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4777]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث،حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ اس نے کب آنا ہے۔
اس کے متعلق نہ تو جبرئیل علیہ السلام کچھ جانتے ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اس کے متعلق کوئی خبر ہے۔
اور اس کا وقت معین نہ بتانے میں حکمت یہ ہے کہ اگربتا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

قیامت کے علاوہ چار باتیں اور بھی ہیں جنھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا:
ان میں پہلی بات یہ ہے کہ نفع دینےوالی بارش کب ہوگی، دوسری یہ کہ مادررحم میں کیا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ تنگ دست ہوگا یا خوشحال، نیک بخت یا بدبخت، گورا ہے یا کالا یہ سب باتیں رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں۔
تیسری بات یہ کہ وہ کل کیا کرے گا، اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں۔
بلکہ اسے کل تک زندہ بھی رہنا ہے یا نہیں۔
چوتھی یہ کہ وہ کب اور کہاں مرے گا؟ 3۔
یہ چار باتیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو دلچسپی ہوتی ہے، اس لیے خاص طور پر ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ اس طرح دیگر کئی امور ایسے ہیں جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4777