ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا ایک جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو“، میں نے عرض کیا: لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3238]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3239]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2273، ومصباح الزجاجة: 1113) (ضعیف)» (سند میں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن أبي عروبة و قتادة عنعنا و روي الإمام مسلم (1950) بالسند صحيح عن أبي الزبير قال: ’’ سألت جابرًا عن الضب فقال: لا تطعموه،و قذره،و قال قال عمر بن الخطاب: إن النبي ﷺ لم يحرّمه،إن اللّٰه عز وجل ينفع به غير واحد،فإنما طعام عامة الرعاء منه و لو كان عندي طعمته‘‘ و ھذا يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 492
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی یہ روایت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3239M]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے ملک میں ضب (گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کر دی گئی ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3240]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصید والذبائح 7 (1951)، (تحفة الأشراف: 4315)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/5، 19، 66) (صحیح)»
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں“، (یہ سن کر) خالد رضی اللہ عنہ نے ضب (گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3241]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتا دیا جاتا، اسحاق بن راہویہ اور بیہقی نے شعب الإیمان میں عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا اور آپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے، جب وہ کھا لیتا تو آپ بھی کھاتے، ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبر میں آپ کے پاس (مسموم) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اور اس سے آپ متاثر ہو گئے تھے تو بعد میں احتیاطی تدبیرکے طور پر ہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداء کراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے)(حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے) ۲؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالد بن ولید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، اور صحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) نہ کھا کر پنیر کھائی اور دودھ پیا۔ اس حدیث میں آپ کے گھن اور کراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب (گوہ) نہیں پائی جاتی تھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب (گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا، حافظ ابن حجر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد «بأرض قومي» کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب (گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہو گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب (گوہ) موجود ہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں دعوت ولیمہ دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب (گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اورکسی نے نہیں کھایا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ حجاز میں ضب (گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے، اس حدیث میں صرف خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب (گوہ) کا گوشت کھایا، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب (گوہ) کا گوشت کھاؤ تو فضل بن عباس، خالد اور مذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا: ”ضب (گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے“ یا فرمایا ”کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میری خوراک نہیں“، ان تصریحات سے پتہ چلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی۔(الفریوائی)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرام نہیں کرتا“ یعنی ضب (گوہ) کو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3242]
وضاحت: ۱؎: ۱- جمہورعلماء کے نزدیک ضب (گوہ) کا گوشت کھانا حلال ہے، ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کا ذکر کیا ہے، جس سے اس کی حلت واضح ہے، ضب (گوہ) امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی، ساتھ میں دودھ اور پنیر بھی تھا، دسترخوان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملا دینے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہو جانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجود چیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے، جبریل علیہ السلام قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہر طرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب (گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طور پر بدؤں اور دیہاتیوں کی غذا تھی تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، تو آپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذر کیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اور پنیر پر اکتفا کیا، ضب (گوہ) کے دسترخوان پر ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ امہات المؤمنین کے یہاں اور دوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالد بن ولید نے اسے مزے لے کر کھایا بھی، اس طرح سے آپ نے اس پر صاد کیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگر ضب (گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتا اس لیے اس واقعہ سے ضب (گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔ شافعی، مالک، احمد اور اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے، اور اس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کھانے سے منع کیا، اس کی سند ضعیف ہے۔ ابن ماجہ نے اوپر ۳۲۴۲ نمبر کی حدیث ذکر فرمائی ہے، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: «الضب لست آكله ولا أحرمه»(۵۵۳۶)(ضب- گوہ- نہ میں کھاتا ہوں نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں)۔ صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب منبر رسول پر ہوا، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو اوپر (۳۲۴۱) نمبر پر گزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ضب (گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے، نووی اس نقل کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے) کا قول صحیح اور ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح بھی ہو تو جواز و حلت کے نصوص سے اور پہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ابن المنذر نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا؟۔ نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے۔ امام طحاوی معانی الأثار میں کہتے ہیں: ایک جماعت نے ضب (گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ان میں ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا: محمد بن الحسن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی، تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے ضب (گوہ) کو دینا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا جو چیز تم نہیں کھا رہی ہو وہ سائل کو دو گی“۔ طحاوی کہتے ہیں: اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ضب (گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھانا ہی پیش کیا جائے، جیسا کہ ردی کھجور دینے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کا شکار ہوئے، اور صحابہ کرام کو کچھ ضب (گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا، ابھی یہ ہانڈیوں پر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے اسے انڈیل دینے کا حکم دیا، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کر کے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنا دی گئی تھی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ضب (گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے انڈیل دو“(اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے،اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، اور طحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی ہے، طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کو بھونا اور اسے کھایا تو نہ تو آپ نے کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے ہر طرح سے ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے، اس بارے میں نصوص صریح ہیں، تو جن احادیث میں ضب (گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا تو وہ اس خیال کی بنا پر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تو نہیں ہے، پھر بعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اورنہ اس کے کھانے سے روکا، اور جب آپ کو اس بات کا علم ہو گیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی، پھر اس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قرار دیتے تھے، اور جب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہونا ثابت ہو گیا، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہو گی، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور جن لوگوں کو ضب (گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب (گوہ) کا کھانا جائز اور مباح ٹھہرا، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔ امام طحاوی ضب (گوہ) سے متعلق احادیث و آثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں: ان آثار سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ضب (گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں بھی اس کا قائل ہوں، اوپر عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جو چیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دو گی! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمد بن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے، محمد بن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مکروہ سمجھا،امام طحاوی اس پر تعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ: «ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه»(سورة البقرة:267) کے قبیل سے ہو، پھر خراب کھجور کو صدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکر کیں اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسند کرتے تھے تو آیت کریمہ: «أنفقوا من طيبات ما كسبتم»(سورة البقرة:267) نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب (گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمد بن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے، بعض لوگوں کا میلان تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ ”احادیث مختلف ہیں، اور پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ اس کا جاننا مشکل ہے، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قرار دیا“۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر ۵۵۳۷)، (نیز: المحلی لإبن حزم ۶/۱۱۲، مسألہ نمبر۱۰۳۲، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۴۲، توضیح الأحکام للبسام)(حررہ الفریوائی)