ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا ایک جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو“، میں نے عرض کیا: لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3238]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3238
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) «ضب» کا ترجمہ سانڈا بھی کیا گیا ہے اور گوہ بھی۔ ضب کےبارے میں علماء نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی دم بہت گرہ دار ہوتی ہے۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ۔ محمد فواد عبدالباقی) اور یہ جانور پانی نہیں پیتا اس لیے عرب میں اگر کوئی شخص یہ کہنا چاہے کہ میں فلاں کام کبھی نہیں کروں گا تو وہ یہ محاورہ بولتا ہے: لاأفعل كذا حتى يرد الضب میں یہ کام نہیں کروں گا حتی کہ ضب پانی پینے آئے۔ کیونکہ ضب پانی نہیں پیتا بلکہ اسے ٹھنڈی ہواکی نمی کافی ہوتی ہے۔ (فتح الباری: 9/820) اس وضاحت کی روشنی میں ضب کا ترجمہ سانڈا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
(2) نبی اکرم ﷺ کاارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے مسخ شدہ لوگوں کی نسل نہیں چلائی۔ (صحیح مسلم، القدر، باب ان الآجال والأرزاق وغیرھا لاتزید ولاتنقص عما سبق به القدر، حديث: 2663) ممكن ہے زیر مطالعہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا سانڈے کےبارے میں اظہار خیال وحی کے ذریعے سے یہ قانون معلوم ہونے سے پہلے کا ہو۔
(3) اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نبی اکرم ﷺ نے گو اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں فرمایا لیکن آپ نے صحابہ کواس کے کھانے سے منع بھی نہیں فرمایا چنانچہ جسے پسند ہو وہ کھالے جیسے کہ آپ ﷺ کے دستر خوان پر اسے کھایا گیا ہے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3238