ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی تھی: «اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع ومن دعا لا يسمع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع»”اے اللہ! میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے، اور اس دل سے جو (اللہ سے) نہ ڈرے، اور اس نفس سے جو آسودہ نہ ہوتا ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 250]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الاستعاذة 17 (5469)، (تحفة الأشراف: 13046)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 367 (1548)، مسند احمد (2/1261) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3837) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علم دین کا نفع یہی ہے کہ آدمی اس پر عمل کرے، اور خلق کو اس کی طرف بلائے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے اللہ! میرے لیے اس چیز کو نفع بخش اور مفید بنا دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے، مجھے وہ چیز سکھا دے جو میرے لیے نفع بخش اور مفید ہو، اور میرا علم زیادہ کر دے، اور ہر حال میں ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 251]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات129 (3599)، (تحفة الأشراف: 14356)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3833) (صحیح)» ( «الحمد لله على كل حال» کا جملہ ثابت نہیں ہے، تراجع الألبانی: رقم: 462)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون الحمد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3599) وانظر الحديث الآتي (3833) ورواية المستدرك (1/ 510 ح 1879،سنده حسن) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 384
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیاوی فائدہ کے لیے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 252]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/العلم 12 (3664)، (تحفة الأشراف: 13386)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/338) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا علماء پر فخر کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہو گا“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 253]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8544، ومصباح الزجاجة: 101) (حسن)» (تراجع الألبانی رقم: 389، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند میں ”حماد بن عبد الرحمن“ اور ”ابوکرب ازدی“ دونوں مجہول راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حماد بن عبد الرحمٰن الكلبي: ضعيف وأبو كرب الأزدي مجھول (تقريب:1502،8326) وللحديث شواھد ضعيفة عند الترمذي (2654) وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 384
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کے لیے نہ سیکھو، اور علم دین کو مجالس میں اچھے مقام کے حصول کا ذریعہ نہ بناؤ، جس نے ایسا کیا تو اس کے لیے جہنم ہے، جہنم“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 254]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2878، ومصباح الزجاجة: 102) (صحیح)» (تراجع الألبانی رقم: 388، وصحیح الترغیب: 102، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی جہنم کا مستحق ہے، یا وہ علم اس کے حق میں خود آگ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن جريج وأبو الزبير مدلسان وعنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 384
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میری امت کے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے، اور کہیں گے کہ ہم امراء و حکام کے پاس چلیں اور ان کی دنیا سے کچھ حصہ حاصل کریں، پھر ہم اپنے دین کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیں گے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) یہ بات ہونے والی نہیں ہے، جس طرح کانٹے دار درخت سے کانٹا ہی چنا جا سکتا ہے، اسی طرح ان کی قربت سے صرف... چنا جا سکتا ہے“۔ محمد بن صباح راوی نے کہا: گویا آپ نے (گناہ) مراد لیا۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 255]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5825، ومصباح الزجاجة: 104) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی عبید اللہ بن أبی بردہ مقبول راوی ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے لین الحدیث ہیں، یعنی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1250)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم عنعن والحديث ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «جب الحزن» سے اللہ کی پناہ مانگو“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! «جب الحزن» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے ان قراء کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اعمال میں ریاکاری کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین قاری وہ ہیں جو مالداروں کا چکر کاٹتے ہیں“۔ محاربی کہتے ہیں: امراء سے مراد ظالم حکمران ہیں۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 256]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد ابن ماجہ بہذا السیاق (تحفة الأشراف: 14586، ومصباح الزجاجة: 103)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزھد 48 (3283)، دون قوله: ''وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَى...''، وقال: ''مئة مرة''، بدل: ''أربع مئة''، والباقي نحوه، وقال: غريب (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی ''عمار بن سیف'' ''وابومعاذ البصری'' دونوں ضعیف را وی ہیں، ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے، جس کا مطلب ان کے یہاں حدیث کی تضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2383) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385
حدیث نمبر: 256M
قال أبو الحسن: حدثنا حازم بن يحيى حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ومحمد بن نمير قالا: حدثنا ابن نمير عن معاوية النصري -وكان ثقة- ثم ذكر الحديث نحوه بإسناده.
اس سند سے بھی معاویہ نصری نے جو ثقہ ہیں مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 256M]
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ایک دوسری سند سے (حدیث کے راوی ابن سیرین) کے بارے میں راوی کا تردد بھی بیان کیا ہے کہ وہ محمد بن سیرین ہے یا انس بن سیرین۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 256M]
وضاحت: (مصباح الزجاجۃ، تحت رقم: ۱۰۳) د/عوض شہری کے نسخہ میں یہ عبارت نہیں ہے جب کہ مصری نسخہ میں یہ یہاں، اور بعد میں نمبر (۲۵) کے بعد ہے، یہاں پر اس نص کا وجود غلط معلوم ہوتا ہے، اس کا مقام نمبر (۲۵۷) کے بعد ہی صحیح ہے)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 257]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9169، ومصباح الزجاجة: 105) (ضعیف)» (اس سند میں نہشل متروک ہے راوی، مناکیر روایت کرتا ہے، اس لئے حدیث کا پہلا ٹکڑا ضعیف ہے، لیکن حدیث کا دوسرا ٹکڑا: «من جعل الهموم» شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جو اسی سند سے مؤلف کے یہاں کتاب الزہد (4106) میں آ رہا ہے، نیز ملاحظہ ہو: كتاب الزهد لوكيع بن الجراح، تحقیق دکتور عبد الرحمن الفریوائی)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس حالت میں اللہ تعالیٰ اس سے اپنی مدد اٹھا لے گا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا وانظر الحديث الآتي (4106) نهشل بن سعيد: متروك،كذبه إسحاق بن راهويه (تقريب: 7198) وروي ابن أبي عاصم في الزھد (166) بسند صحيح عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰه ﷺ: ((من جعل الھموم ھمًا واحدًا كفاه اللّٰه ھمه من أمر دنياه وآخرته وجعل غناه في قلبه ومن تشعبت به الھموم فلا يبالي اللّٰه في أي أودية الدنيا ھلك)) و ھذا يغني عنه۔ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے غیر اللہ کے لیے علم طلب کیا، یا اللہ کے علاوہ کی (رضا مندی) چاہی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنا لے“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 258]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/العلم 6 (2655)، (تحفة الأشراف: 6712) (ضعیف)» (خالد بن دریک کا سماع ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں ہے، اس لئے یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2655) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کرنے یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے نہ سیکھو، جس نے ایسا کیا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہو گا“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 259]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3382، ومصباح الزجاجة: 106) (حسن)» (سند میں ''بشیر بن میمون'' متروک ومتہم اور ''اشعث بن سوار'' دونوں ضعیف ہیں، اس لئے یہ سند سخت ضعیف ہے، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: تخريج اقتضاء العلم، للخطیب البغدادی: 100- 102، وصحيح الترغيب: 106-110)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف ‘‘ بشير بن ميمون: متروك متھم (تقريب: 725) وأشعث بن سوار: ضعيف وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم کو علماء پر فخر کرنے، اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرنے، اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے سیکھا، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 260]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14337، ومصباح الزجاجة: 107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/338) (حسن)» (سند میں ''عبد اللہ بن سعید المقبری'' ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کے بناء پر حدیث صحیح ہے، کما تقدم)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف۔لإ تفاقھم علٰي ضعف عبد اللّٰه بن سعيد ‘‘ وھو متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 385