ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیاوی فائدہ کے لیے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 252]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/العلم 12 (3664)، (تحفة الأشراف: 13386)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/338) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث252
اردو حاشہ: (1) جس طرح دوسرے نیک اعمال کے لیے اخلاص نیت شرط ہے اسی طرح حصول علم کے لیے بھی خلوص ضروری ہے۔
(2) علم حاصل کرتے وقت یہ نیت نہیں ہونی چاہیے کہ اس سے دنیوی فوائد حاصل ہوں گے۔ صاحب اخلاص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ذلیل نہیں فرماتا اور اپنے فضل سے اس کی دنیاوی ضروریات پوری ہونے کے اسباب مہیا فرما دیتا ہے، اس لیے یہ سوچ کر دینی علم سے محروم نہیں رہنا چاہیے کہ عالم دین کو دنیا نہیں ملتی۔
(3) جنت کی خوشبو نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جنت سے بہت دور ہو گا حتی کہ جنت کا نظر آنا تو درکنار اس کی خوشبو بھی نہیں پہنچے گی۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جہاں نظر نہیں پہنچتی وہاں خوشبو پہنچ جاتی ہے۔ جنت سے اس قدر دوری کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا۔ أعاذنا الله منها- (4) دنیا کمانے کے لیے دینی علم سیکھنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ ایسا شخص دنیا کے لالچ میں غلط مسائل بیان کرتا ہے تاکہ لوگ اس سے خوش ہو کر اس کی خدمت کرتے رہیں۔ اس طرح وہ ہدایت کے بجائے گمراہی پھیلانے والا بن جاتا ہے۔
(5) دنیوی علوم اس غرض سے حاصل کرنا کہ ان کے ذریعے سے رزق حلال کمایا جائے، اس وعید میں شامل نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 252
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 227
´ریاکار عالم دین کا انجام` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . - [78] - يَعْنِي رِيحَهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْن مَاجَه . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس علم کو حاصل کرتا ہے جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے یعنی شرعی علم۔ اس نے اس غرض سے حاصل کیا کہ اس سے دنیا کی متاع حاصل کرے۔ یعنی صرف دنیا کا فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے سیکھے اللہ کی خوشنودی کے لئے نہیں تو قیامت کے روز جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ یعنی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ جنت میں داخل ہو گا تو جنت کی خوشبو ضرور پائے گا اور جو نہیں داخل ہو گا تو اس خوشبو سے محروم رہے گا۔“ اس حدیث کو احمد، ابن ماجہ، ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/0: 227]
تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن لذاتہ ہے۔ ◄ اسے ابن حبان [الاحسان: 78، الموارد: 89] اور حاکم [1؍85 ح288] نے صحیح قرار دیا ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ نیکی کا ہر کام بالخصوص دینی علم حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت ضروری ہے۔ ➋ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ➌ دنیاوی علوم دنیاوی مقاصد کے لئے حاصل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ان کی ممانعت کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو، مثلاً نجومیوں کا علم سیکھنا جائز نہیں، اِلا یہ کہ کوئی عالم اور صحیح العقیدہ شخص ان کا رد کرنے کے لئے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ ➍ اس حدیث میں ممانعت سے اس طرف اشارہ ہے کہ امت میں بعض ایسے بدنصیب لوگ ہوں گے جو دنیا حاصل کرنے کے لئے دینی علوم پڑھیں گے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3664
´غیر اللہ کے لیے علم حاصل کرنے کی برائی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3664]
فوائد ومسائل: فائدہ: علم ودین شریت کو محض دنیا کا مال ومنصب حاصل کرنے کی غرض سے سیکھنا بہت بڑی شقاوت ہے۔ لازم ہے کہ اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کی نیت رکھی جائے۔ اللہ عزوجل دنیا کی ضروریات از خود پوری فرما دے گا، جیسے کہ اہل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگر سلف صالحین کی سیرتوں سے ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3664